بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے لبنان کی مقاومت اسلامی کی دو ممتاز شخصیات شیخ نبیل قاؤوق اور سید سہیل الحسینی کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر، مقاومت کے مشن اور محور حق کا دفاع جاری رکھنے پر زور دیا۔
اس تقریب میں مقاومت کے کئی رہنماوں، سیاسی و مذہبی شخصیات اور شہداء کے اہل خانہ نے شرکت کی۔
شیخ قاؤوق کی یادگار؛ محاذ جنگ سے لے کر پیشگی سکیورٹی کی ذمہ داری تک
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے اس تقریب میں شہید شیخ نبیل قاؤوق کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا: وہ شہید سید ہاشم صفی الدین کے ساتھی تھے جو گذشتہ سال اسی دن شہید ہوئے تھے۔
انھوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ کے خلاف شہید قاؤوق کے مؤثر کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاؤوق سنہ 2018 سے لے کر شہادت تک حزب اللہ کی حفاظتی یونٹ کے ذمہ دار تھے۔
شیخ قاسم نے اس سوال کے جواب میں ـ کہ اس اعلی اہلکار کو دوسرے عہدے پر کیسے منتقل منتقل کیا گیا، ـ کہا کہ انھوں نے یہ ذمہ داری سید حسن نصراللہ کے حکم کی مکمل اطاعت میں قبول کی تھی۔
انھوں نے جنوب لبنان، بیروت اور شام میں شہید قاؤوق کی مجاہدین کے ساتھ مسلسل معیت نیز ان کی علمی اور دینی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا اور سیرت، اخلاق اور عقائد کے میدان میں ان کی متعدد تصانیف کا تعارف کرایا۔
شہید قاؤوق؛ ایک ہی معرکے میں بیداری، ایمان اور قربانی کا اتمّ نمونہ
شیخ نعیم قاسم نے شہید قاؤوق کو بیداری، ایمان اور قربانی کی اعلی مثال قرار دیتے ہوئے کہا: "جب دشمن ایران، اسلامی مقاومت اور فلسطین کو نشانہ بناتے ہیں، تو یہ سب ایک ہی جنگ کا تسلسل ہے اور خطے میں ہر شخص کو اپنی استطاعت کے مطابق ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔"
انھوں نے معرکۂ "اولی البأس" کے محاذ پر 12 علماء کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے، امت کی سیاسی، جہادی اور عملی تحریک سے علماء کے جدا نہ ہونے والے رشتے پر زور دیا۔
الحاج عماد مغنیہ کے رفیق کار سید سہیل الحسینی کی ذمہ داریاں
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک جہادی کمانڈر شہید سید سہیل الحسینی، کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ شہید الحسینی مقاومت کے آغاز ہی سے شہید الحاج عماد مغنیہ کے ساتھی اور رفیق کار تھے اور شہید مغنیہ جہاد اور سکیورٹی کے حوالے سے ان کے کام پر اعتماد کرتے تھے۔
شیخ قاسم نے کہا کہ انھوں نے سنہ 1991 میں بیروت کے علاقے کی سلامتی کی ذمہ داری سنبھالی؛ سنہ 2000 تک حاج رضوان (شہید الحاج عماد مغنیہ) کے معاون کے طور پر خدمات کاؤنٹر انٹیلی جنس کے شعبے میں سرگرم عمل رہے۔ نیز، سنہ 2008 سے سید حسن نصراللہ کے معاون اور اسٹاف کے مسئول رہے اور مجاہدین کے خاندانی پہلوؤں کو اہمیت دینا بھی اس شہید کی دیگر خصوصیات میں سے تھا، جس کی بنا پر لوگ انہیں تربیت و ثقافت کا سرچشمہ اور استاد سمجھتے تھے۔ شہید نصراللہ نے انہیں معاشی و سماجی بحران سے نمٹنے کے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی اور انھوں نے عوام کی مدد کے لئے متعدد منصوبوں کی بنیاد رکھی۔
"عظیم تر اسرائیل" کا منصوبہ؛ امریکی حمایت یافتہ علاقائی پراجیکٹ
شیخ نعیم قاسم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے علاقائی منصوبوں کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ صیہونی حکومت "عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے کے درپے ہے اور ریاستہائے متحدہ امریکہ اس کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا اس وقت ہر نظر آنے والا قدم اسی منصوبے کا حصہ ہے اور ہر ٹیکٹیکل پسپائی ایک موقع ہے جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے گذشتہ دو سالوں کے غزہ کے واقعات کو "عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے کا ایک لازمی حصہ قرار دیا اور کہا کہ خطے کا ہر واقعہ دوسرے سے منسلک ہے اور تمام واقعات کے درمیان باہمی تعلق ہے۔
انھوں نے خطرات کے خلاف اجتماعی ردعمل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: "ہم سب کو اس خطرے کا سامنا کرنا چاہئے، اور کسی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اس کا ملک اس معاملے سے لا تعلق ہے، کیونکہ سب ہی نشانے پر لئے گئے ہیں۔ موجودہ قدم غزہ میں اٹھایا گیا ہے، اور باقی اقدامات بھی کسی دن اسرائیلی نقطہ نظر کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔"
غزہ کے لئے ٹرمپ کا خطرناک منصوبہ: اسرائیلی منصوبہ امریکی لبادے میں
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے غزہ کے لئے ٹرمپ کے منصوبے کو خطرات سے بھرپور قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ [یعنی غزہ کے لئے ٹرمپ کا امن منصوبہ] اسرائیل کے مفادات کے عین مطابق ہے، اور کچھ شقوں میں ترمیم کے ساتھ یہ "عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
شیخ قاسم نے کہا: "اسرائیلی منصوبہ "امریکی بھیس" میں پیش کیا گیا جس نے بہت سے سوالات پیدا کئے ہیں، یہاں تک کہ بعض عرب حکام بھی حیران ہیں اور وضاحت چاہتے ہیں۔"
شیخ قاسم نے ٹرمپ کے منصوبے کے نکات کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر غزہ میں ایک بین الاقوامی انتظامیہ قائم ہوتی ہے اور وہ ناکام ہو جاتی ہے، اور مجاہدین کو قیدی بنا لیا جاتا ہے، تو مقاومتی لڑائیوں کا کیا فائدہ رہ جائے گا؟
انھوں نے اس وقت اس منصوبے کے پیش کرنے کی چار وجوہات بتائیں، جن میں 'اسرائیل کو عالمی مذمت سے بچانا' اور اس "ریاست کی ساکھ بہتر بنانا' شامل ہیں۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا: "غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کے لئے درجنوں ممالک سے تعلق رکھنے والے عالمی صمود بیڑے کی موجودگی، اسرائیل کے زوال کی علامت ہے اور ہم اس حوالے سے اسپین کے کردار کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں۔"
ٹرمپ منصوبے کے نتائج کا اعلان فلسطینی کریں گے
انھوں نے کہا "ہم اس نتیجے کا انتظار کر رہے ہیں جس کا اعلان فلسطینی کریں گے، کیونکہ ٹرمپ کا منصوبہ ایک تجویز ہے، معاہدہ نہیں، اور معاہدے کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوگا۔ فلسطینی ہتھیار ڈالنے کا تصور تک نہیں کرتے؛ ضرورت اس بات کی ہے کہ کم از کم عرب اور اسلامی ممالک ـ جو غزہ اور فلسطین کی حمایت نہیں کرتے ـ مقاومت پر دباؤ ڈالنا چھوڑ دیں۔"
لبنان میں دشمن کی فتنہ انگیزی کی سازش کے بارے میں انتباہ
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے "صہیونی ریاست کی جارحیتوں اور ہوسناکیوں (توسیع پسندی)" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "لبنان پر صہیونی ریاست کے حملے مقاومت اور لبنان کے عوام پر دباؤ ڈالنے اور ملک کو کمزور کرنے کے مقصد سے ـ مکمل امریکی حمایت میں ـ کئے جا رہے ہیں۔"
انھوں نے دشمن کی اپنا اثر و رسوخ کا دائرہ پھیلانے اور امریکہ کی علاقائی امور میں براہ راست مداخلت کے منصوبوں کی ناکامی کی یاددہانی کراتے ہوئے کہا "حکومتی ڈھانچے میں مداخلت کی بیرونی فریقوں کی کوششوں کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔"
شیخ قاسم نے کہا: "دشمن کا مقصد لبنان کی مسلح افواج کے درمیان فتنہ پیدا کرنا ہے، لیکن لبنانی فوج نے دانشمندی سے کام لیا ہے اور فوج اور مقاومت دونوں نے واضح کر دیا ہے کہ فتنہ پیدا کرنا ایک مذموم عمل ہے۔"
انھوں نے کہا: "ہماری فوجی صلاحیت اور صہیونی دشمن کی فوجی طاقت کے درمیان فرق ضرور ہے لیکن حزب اللہ کی برتری کی بنیاد وطن سے وابستگی، قربانی اور مقاومت و مزاحمت کے لئے تیاری اور تاریخی عوامی عزم پر انحصار ہے۔"
حکمرانی اور خودمختاری کی بحالی اور انتخابات کے لئے غیر ملکی منصوبوں کی مخالفت
شیخ نعیم قاسم نے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ہمیشہ قومی خودمختاری سالمیت کی بحالی اور تحفظ ر زور دیں اور اس مقصد کے لئے مستقل کمیٹیاں قائم کریں۔
انھوں نے ان سیاسی دھڑوں پر تنقید کا نشانہ بنایا جو امریکہ اور صہیونی ریاست کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، اور ثانوی مسائل میں الجھنے کو حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں سے غفلت قرار دیا۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے لبنان کی تعمیر نو کی ضرورت پر زور دیا اور یاددہانی کرائی کہ حکومت کو تعمیر نو کے سلسلے میں اپنے وعدوں کی تکمیل کے لئے ضروری منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔
انھوں نے بیرون ملک مقیم لبنانیوں کی نمائندگی کے لئے انتخابی قانون کے مسودے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا: "کسی مخصوص گروہ کے حق میں انتخابی قانون نہیں بنایا جا سکتا، اور ہم بیرونی دباؤ پر مبنی کسی بھی منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ