19 فروری 2025 - 12:42
شہیدین سید حسن نصراللہ اور سید صفی الدین کی تشییع جنازہ "شعائر اللہ کی تعظیم" کی علامت + ویڈیو

"شعائر" قرآنی زبان میں اعتقادات کو نمایاں کرنے کی علامت ہے، ان علامتوں کو معاشرے میں اتنا فروغ ملنا چاہئے کہ جو بھی انہیں دیکھ لے اسے ایک عقیدے اور ایک فکر کا مکمل مظہر نظر آجائے۔ بےشک شہیدین نصراللہ اور صفی الدین کی تشییع جنازہ "شعائر اللہ" میں سے ایک ہے۔ شہیدین سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ، ایسا عمل ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنانے کی ہر کوشش "قلوب کا تقویٰ" اور امت کے ہر فرد بالخصوص دنیا بھر میں محور مقاومت یا محاذ مزاحمت کے مجاہدوں کے دلوں کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے۔

ارشاد ربانی ہے:

"وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَىٰ الْقُلُوبِ؛ [1]

اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے"

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، دینی زبان میں "شعائر" ایک ثقافت و تہذیب کی علامت کے طور پر ایک تہذیب و ثقافت اور ایک فکر کی تخلیق، بقاء اور فروغ پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تمام ثقافتوں اور ذیلی ثقافتوں، اور توحیدی اور غیر توحیدی مذاہب و مسالک میں علامتوں (Symbols OR Waymarks) کو ـ جنہیں آج کے زمانے کی تشہیراتی زبان میں برانڈنگ (Branding) کے طور بھی جانا جاتا ہے ـ اعتقادات اور افکار کو نمایاں کرنے میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ توحیدی، قرآنی، اسلامی، شیعی شعائرث ان افکار کو معاشرے کے عمومی افکار میں متعارف کرانے اور فروغ دینے کی نشانیاں اور علامتیں ہیں۔

شعائر وہ بنیادی عناصر ہیں جن کا ثمرہ ایک فکر کا استحکام اور استقرار ہے، چنانچہ انہیں مستقل طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، انہیں پیہم کوشش کے ذریعے محفوظ کرنا چاہئے، اور فروغ دینا چاہئے تاکہ اس طرح کے مقدس تہذینی علائم کو عالمی سطح پر پہچان لیا جائے۔

شعائر، عقائد کی واضح علامت

قرآنی آیات کے مطابق، ہر وہ چیز جو انسان کو اللہ کی یاد دلائے، وہ "شعائر" میں شامل ہے اور اس کی تکریم اور تعظیم قلوب کی تقویت کا سبب بنتی ہے۔ جیسا کہ "اسلامی نظام" اور "اسلامی مزاحمت" کے شعائر کو ـ جو قرآنی اور دینی اصولوں سے ماخوذ ہیں ـ معاشروں میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی نظام اور اسلامی مقاومت و مزاحمت کو تقویت ملے۔

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) فرماتے ہیں: "اسلامی نشانیوں اور علامتوں کو مطلقا کمزور نہیں کرنا چاہئے۔ "وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَىٰ الْقُلُوبِ"، اصولی طور پر شعائر درحقیقت دکھانے اور نمایاں کرنے اور لوگوں آنکھوں کے سامنے رکھنے پر کے لئے ہیں۔ شعائر کو کمزور نہیں کرنا چاہغے، کچھ لوگ یہ کہہ کر ـ کہ ہم دکھاوا کرنے اور ریاکاری کرنے والے نہیں ہیں ـ اسلامی شعائر، اسلامی علامتوں، اسلامی چہرے، اسلامی حلیے، اسلامی برتاؤ، اسلامی پرچموں کو اپنی زندگی سے بھی اور عوام کی زندگی سے بھی ہٹا دیتے ہیں"!۔

اسلامی نظام میں، شعائر، "ایام اللہ" کے موقع پر لگنے والے نعروں، کبھی امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اور امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) کے کلام میں جلوہ گر ہوتے ہیں، جن پر اگر توجہ مرکوز کی جائے تو قومی تشخص یا اعتقادات کو تقویت ملتی ہے۔

شعائر کی شناخت

لفظ "شعائر" "شعیرہ" کی جمع ہے جس کے معنی نشانیوں اور علامتوں کے ہیں اور ہر وہ وہ چیز جو انسان کے لئے بہت زیادہ قابل قدر ہو، ان "شعائر" میں شامل ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر میں، شعائر میں عیاں ترین شیئے ہر ملک کے قومی پرچم کا نشان ہے جو اس ملک کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

لیکن دینی اعتقادات جغرافیائی سرحدوں تک محدود نہیں ہیں، اور دوسری علامتیں پوری دنیا میں دینی عقائد کو نمایاں کرتی ہیں۔ جیسا کہ "صلیب" عیسائیت کی علامت ہے، اور قرآن اسلامی کی علامت ہے، اور یہ دو علامتیں پوری دنیا میں ان دو توحیدی ادیان کی پہچان کا سبب ہیں۔

شعائر کے اس معنی کی رو سے کہنا چاہئے کہ ان شعائر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ عمرانیات کے بعض ماہرین انہیں تین پرتوں "عقائد اور بصیرت"، "اقدار اور نظریات" اور "رویوں اور  آداب" کے ساتھ چوتھی پرت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، اور انہیں "علامتیں اور  بیرونی مظاہر" کا عنوان دیتے ہیں۔ یہ پرت یا تہہ، رویوں، آداب، عادات و اطوار، لباس، طرز تعمیر، فن و ہنر اور قومی اور مذہبی علامتوں کو نمایاں کرتی ہے۔

اب اگر یہ علامتیں دینی اور الٰہی کی یاددہانی کراتی ہوں، تو قرآنی اصطلاح میں انہیں "شعائر اللہ" کا نام دیا جا سکتا ہے۔ جو علامتیں اللہ اور روئے زمین پر الٰہی اقدار کی یاددہانی کراتی ہیں اور ان "شعائر اللہ" کے فروغ کے لئے کی جانے والی ہر کوشش درحقیقت معاشرے میں االٰہی عقائد کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ہے۔

محور مقاومت [محاذ مزاحمت] کے شعائر

بلا شبہ، جیسا کہ "نماز" اسلام کی علامت، "پرچم" ملک کی علامت، "مینار اور گنبد" مسجد کی علامت، "عاشورا کی عزاداری اور اربعین کی عظیم ریلی" شیعیان اہل  بیت(ع) کی علامت ہے، "محور مقاومت" (یا محاذ مزاحمت) بھی اسلامی نظام اور امت مسلمہ کے دوام اور بقاء کی علامت ہے جس کو توجہ دینا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

سوال یہ ہے کہ "محور مقاومت" کی علامت کیا ہے؟ بلا شبہہ محور مقاومت کی ہر تحریک اور تنظیم کا اپنا ہی پرچم اس کی اپنی علامت سمجھی جاتی ہے اور انہیں محور مقاومت کے کچھ "شعائر" ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کونسی چیز یا شخص "محور مقاومت کی علامت" ہے؟ اس علامت کو ـ جیسی بھی ہو ـ اس طرح سے ہونا چاہئے کہ جب بھی، دنیا کے کسی بھی گوشے میں، کوئی بھی شخص اس تصویر کو دیکھ لے، اس کو "محور مقاومت کی علامت" سمجھے۔

اب "محور مقاومت کے شعائر" کو بہتر انداز توجہ دی جا سکتی ہے، بلاشبہہ "الحاج قاسم سلیمانی" کو دنیا کے کسی بھی گوشے میں "محور مقاومت کی علامت" سمجھا جاتا ہے۔ اور اس وقت "شہید سید حسن نصراللہ" اس محاذ کے لئے دوسری نمایاں علامت ہیں۔ یہ دو شخصیات اس وقت "شعائر اللہ" میں بدل چکی ہیں، اور ان کے نام اور مقاصد کے احیاء اور ان کے افکار کے آفاق کی تشریح و توضیح بلا شبہہ ان علامتوں کے فروغ کی کوشش ہے جو معاشرے میں "شعائر اللہ" کو عملی شکل دینے کا باعث بنتی ہے۔

سوشل میڈیا اور ورچوئل اسپیس پر عبارت " #إنا_علی_العهد " ( #اِنا_علی_العہد ) کی ترویج شہید سید حسن نصراللہ کی یاد اور تکریم کی علامت جانا جاتا ہے۔ نیز کسی بھی جگہ

سَیِّدُ المُقَاوَمَہ ـ سید حسن نصراللہ ـ کی شاندار تشییع جنازہ کے انعقاد کے ساتھ ساتھ، کسی بھی فرد کی طرف سے ـ خواہ وہ لبنان میں حاضر ہو، خواہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ان کی یاد میں منانے جانے والی مجالس، تقریبات اور اجلاسوں یا کانفرنسوں میں حاضر ہوتا ہو ـ ان کی تعلیمات و افکار کے فروغ کے لئے کوئی بھی ابلاغیاتی، تبلیغی و تشہیری اور ترویجی کوشش، "شعائر اللہ کی تعظیم" کے زمرے میں آتی ہے اور دنیا بھر میں مقاومت کی ثقافت و تعلیمات کے فروغ پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، اور ان اثرات میں سب سے چھوٹا اثر ـ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق، روئے زمین پر اللہ کی حکومت کے قیام بے لئے ـ قلبوں اور دلوں کی تقویت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

#إنَّا_عَلَی_العَہدِ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


[1]۔ سورہ حج، آیت 22۔