حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے فلسطین کے لئے شہید ایزدی (الحاج رمضان) کی خدمات اور کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہوئے لبنان میں مقاومت کو غیر مسلح کرنے کے لئے امریکی سازشیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ امریکی، مقاومت کی صلاحیتوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے شہید میجر جنرل محمد سعید ایزدی (الحاج رمضان) کی شہادت کے چہلم کی تقریب سے خطاب کیا۔ الحاج رمضان سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس میں ایک اعلیٰ کمانڈر اور فلسطین سیکشن کے ذمہ دار تھے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا شہید ایزدی دور دراز سے آئے تھے تاکہ فلسطینی قوم کی خدمت کریں فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیں، کہا: الحاج رمضان غزہ کے دفاعی منصوبے اور وہاں کی مقاومتی تحریک کو مضبوط بنانے کے نگران تھے۔ انہیں اس علاقے میں مقاومتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا اہتمام کرتے تھے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے شہید میجر جنرل محمد سعید ایزدی (الحاج رمضان) کی شہادت کے چہلم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
• شہید ایزدی، فلسطین کے قومی اتحاد کو خاص اہمیت دیتے تھے۔
• الحاج رمضان تاکید کرتے تھے حزب اللہ کو بھی فلسطینی مقاومت کے قریب ہونا چاہئے۔
شہید ایزدی کا فلسطینی گروہوں کے اتحاد پر زور
• عملیات طوفان الاقصیٰ ایک معجزہ تھا جسے مقاومتی گروہوں میں سے کسی نے بھی انجام نہیں دیا تھا۔ مسجد الاقصیٰ اور قدس شریف اپنے خادموں کو عظمت عطا کرتے ہیں۔ الحاج رمضان بھی امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے نظریے کے پیرو تھے اور صہیونی ریاست کو ایک کینسر کا ٹیومر سمجھتے تھے۔
• فلسطین ایک انسانی مسئلہ ہے اور جغرافیے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے چنانچہ سب کو فلسطین کی مدد کرنا چاہئے۔ الحاج رمضان بھی فلسطینی گروہوں کے اتحاد کو خاص اہمیت دیتے تھے۔
• الحاج رمضان شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کے دو دن بعد لبنان آئے تاکہ اپنی خدمات حزب اللہ کو میں پیش کر دیں، وہ ایک منکسرالمزاج انسان تھے جو امام خامنہ ای (مد ظلہ) اور امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) سے دلی محبت کرتے تھے۔
امریکہ حزب اللہ کی طاقت سلب کرنے کے لئے کوشاں ہے
• ان دنوں بیروت بندرگاہ کے دھماکے کی برسی بھی ہے، ہم سیاسی کھیلوں سے فارغ تحقیقات کو تیز کرنے کے خواہاں ہیں؛ تحقیقات کے نتائج میں تاخیر کا سبب یہی سیاسی کھیل ہیں۔
• لبنان کی تعمیر کے لئے تین بنیادی اصول ہیں: پہلا اصول، شراکت اور تعاون ہے۔ دوسرا اصول، ان ترجیحات کا تعین ہے جو لبنانی معاشرے کے حقائق سے تعلق رکھتی ہیں؛ اور وہ بھی بیرونی ڈکٹیشنز سے بالکل دور۔ تیسرا اصول غیر ملکی تحکم اور تسلط کو تسلیم نہ کرنا، ہے۔
• جنگ بندی کا معاہدہ، حزب اللہ اور حکومت کے درمیان مضبوط ہم آہنگی اور تعاون کی نشاندہی کرتا تھا؛ معاہدے میں جو کچھ طے پایا تھا حزب اللہ نے اسے حکومت کے لئے آسان بنایا؛ لیکن اسرائیل نے اب تک اس معاہدے کی پابندی نہیں کی ہے۔
• لبنان کو کمزور کرنا اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ اسرائیل اس طریقے سے لبنان کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔ امریکہ نے بھی کوئی نئی تجویز پیش نہیں کی ہے، بلکہ جو پیش کیا گیا ہے وہ ایک ڈکٹیشن ہے تاکہ اس کے ذریعے حزب اللہ اور لبنان کی طاقت سلب کی جائے۔
ہم ایک گھنٹے میں اسرائیل کا امن ختم کر کے رکھیں گے
• امریکی نمائندہ ٹام باراک کی تجویز کے بارے میں کہنا یہ ہے کہ باراک کی تیسری تجویز اس کی دوسری اور پہلی تجویز سے کہیں بدتر ہے۔ یہ امریکی عہدیدار اصرار کرتا ہے کہ حزب اللہ کے 50 فیصد بنیادی ڈھانچے کو 30 دنوں میں ختم کر دیا جائے۔ امریکی تجویز میں یہ بھی زور دیا گیا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کے 50 فیصد بنیادی ڈھانچے کے خاتمے کے بعد لبنان کے تین تزویراتی علاقوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
- یہ امریکی تجویز اس بنیاد پر ہے کہ اسرائیل کے ہاتھ کھلے رہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اپنی تجویز کے ذریعے یہ یقینی بنائے کہ لبنانی فوج کے پاس کوئی بھی ہتھیار نہ رہے جو اسرائیل پر منفی اثر ڈال سکے۔
• ہم کسی صورت میں نئے سمجھوتے سے اتفاق نہیں کریں گے، ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں پرانا معاہدہ نافذ کرنا چاہئے۔ ہم کسی بھی ٹائم ٹیبل سے اتفاق نہیں کریں گے۔ ہمیں بیرونی دباؤ کے آگے نہیں جھکنا چاہئے۔
• اسرائیل کا فائدہ اور مصلحت اس میں ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر جنگ کی طرف نہ بڑھے؛ کیونکہ مقاومت، فوج اور لبنانی قوم دفاع کریں گے اور ہمارے میزائل صہیونی ریاست کے اندر جا لگیں گے۔ لہذا صہیونیوں نے گذشتہ 8 مہینوں میں جو امن اپنے لئے حاصل کر لیا ہے، وہ صرف ایک گھنٹے میں ختم ہو کر رہ جائے گا۔
حزب اللہ کے ہتھیاروں کی تحریل، لبنان کی خودمختاری کے خلاف ہے
• اگر ہم اپنے ہتھیار دے دیں، تو اسرائیل کے حملے کسی صورت میں بھی نہیں رکیں گے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا اسرائیلی اہلکار صراحتاً اعلان کر رہے ہیں۔ صہیونیوں کی طرف سے لبنانی فوج کی ظاہری اور کھوکھلی حمایت بھی صرف اس کے داخلی فرائض انجام دینے کے لئے ہے، نہ کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے۔ لہذا ہمیں یہ سوال بھی اٹھانا چاہئے کہ کیا اسرائیل، امریکہ اور بعض عرب ممالک کی درخواست پر ہتھیار چھوڑنا واقعتاً لبنان کی خودمختاری کو مضبوط بنانے کے لئے ہے؟
• لبنان کے وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیلی قبضے سے ملک کے تمام علاقوں کی آزادی کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اقدامات کہاں ہیں؟ لبنانی حکومت کو ملک کا دفاع کرنا چاہئے، نہ کہ قوم اور مقاومت کو ان کی طاقت سے محروم کرنا؛ یہی نہیں بلکہ حکومت کو ہتھیار چھیننے کے بجائے اس طاقت کو استعمال کرنا چاہئے تاکہ ملک اور حکومت کو مضبوط اور صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔
• لبنانی مقاومت ملک کی دیگر قوتوں کے ساتھ تعاون اور معاہدے کی خواہاں ہے؛ ہمیں ان لوگوں کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہئے جو اندرونی فتنے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس ملک نے بہت خون دیا ہے اور ہم کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیں گے کہ ہم پر کوئی چیز مسلط کر دے۔ کوئی بھی لبنان کو اس کی طاقت سے محروم نہیں کر سکتا۔
• حزب اللہ نے غزہ کی حمایت کے اپنے آپریشن میں اسرائیل کی جارحیت کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ اگر ہم مداخلت نہ کرتے تو دشمن بیروت تک پہنچ چکا ہوتا، لیکن مقاومت، فوج اور لبنانی عوام نے اسرائیل کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام بنا دیا۔
• اگر دشمن یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے زخمی افراد اب خدمت کرنے (اور دشمن کے خلاف لڑنے) کے قابل نہیں ہیں، تو وہ غلطی پر ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ