13 اکتوبر 2025 - 15:06
پاکستان اور طالبان کے درمیان فوجی تصادم: وجوہات اور مستقبل کے امکانات

طالبان کے دوسرے دور کی حکمرانی کے دوران پاکستان اور طالبان کے تعلقات پہلے دور جیسے نہیں ہیں۔ کابل میں اقتدار کی منتقلی کے دوران جنرل فیض حمید کے نمایشی مظاہرے کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ تعامل میں شدید تعطل سے دوچار ہو گیا ہے۔ [۔۔۔]

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || طالبان کے دوسرے دور کی حکمرانی کے دوران پاکستان اور طالبان کے تعلقات پہلے دور جیسے نہیں ہیں۔ کابل میں اقتدار کی منتقلی کے دوران جنرل فیض حمید کے نمایشی مظاہرے کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ تعامل میں شدید تعطل سے دوچار ہو گیا ہے۔ گذشتہ ہفتے، پاکستان نے افغانستان کے دارالحکومت میں ہوائی حملے کئے، جس کے جواب میں طالبان نے سرحدی علاقوں میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا ایک سلسلہ چلایا۔ پاکستان کی طرف سے کئی ہوائی اور زمینی حملوں کے باوجود، فی الحال طالبان کی طرف سے کسی نئی کارروائی کی رپورٹ نہیں ملی ہے۔ پاکستان کے اندازے کے مطابق، ان جھڑپوں میں کم از کم 200 طالبان سے وابستہ اہلکار اور 23 پاکستانی فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کارروائیاں

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوبارہ قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہؤا ہے اور گذشتہ چار سالوں میں اس مسئلے پر سفارتی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اندازوں کے مطابق، سنہ 2025 پاکستان کے لئے پچھلے 15 سالوں میں سب سے خونی سال ثابت ہؤا ہے۔ سرحدی حدود پر دیرینہ تنازعہ، افغانستان سے ملحقہ دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ حملوں کا ارتکاز اور ان حملوں کی بہتات، اور طالبان اور خطے کی دیگر دہشت گرد گروہوں کے درمیان تاریخی تعلقات نے پاکستان کے ذہن میں اس تشدد میں طالبان کے کردار کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔

فی الحال، پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کی سرپرستی میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کا کلیدی کردار ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور فوجی عہدیداروں نے طالبان پر بارہا ان گروہوں کو روکنے میں ناکامی یا انہیں خاموش حمایت دینے کا الزام لگایا ہے۔ پاکستان خاص طور پر اس بات پر زور دیتا ہے کہ ان گروہوں کے اکثر رہنماؤں اور فعال کارکنوں کو افغانستان میں پناہ دی گئی ہے۔ گذشتہ چار سالوں میں، پاکستان نے ان قوتوں کو روکنے اور انہیں حوالے کرنے کے لئے طالبان پر مسلسل دباؤ ڈالا ہے۔

طالبان کے بین الاقوامی نقطہ نظر کا ارتقاء

طالبان حکومت کے قیام کے پہلے دور (1996-2001) میں کے اس حکومت کے خارجہ تعلقات زیادہ تر پاکستان کے زیر کنٹرول تھے، اور اس گروپ نے آزادانہ طور پر سفارتی کوششیں نہیں کی تھیں۔ بہت سے تجزیہ کار سنہ 2013 میں قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے افتتاح کو پاکستان کی خصوصی پوزیشن کے خاتمے اور گروپ کے آزاد بین الاقوامی نقطہ نظر کے ابھرنے کا آغاز سمجھتے ہیں؛  تاہم، پاکستان طالبان کی صفوں میں سب سے زیادہ بااثر بیرونی اداکاروں میں سے ایک رہا۔ دوسری طالبان (حکومت) نے بیجنگ اور ماسکو سے دوشنبے، تاشقند اور تہران تک فعال طور پر حمایت حاصل کرنے اور اپنی حکومت تسلیم کروانے کی کوشش کی ہے، جبکہ پاکستان نے نئی دہلی کو اس دائرے میں شامل کرنے کی کوشش کو ناقابل قبول اور [اپنے لئے] خطرناک قرار دیا ہے۔

پاکستان کو یقین ہے کہ طالبان اور بھارت کے درمیان سیاسی اور سکیورٹی رابطوں میں اضافہ پاکستانی سرزمین پر دہشت گردانہ حملوں کی ایک نئی لہر ابھرنے کا باعث بنے گا، جسے بھارت سے مالی اور فوجی مدد اور طالبان کی طرف سے زمینی حمایت اور انٹیلی جنس پشت پناہی حاصل ہو گی۔

غور طلب ہے کہ کابل پر فضائی حملہ طالبان کے وزیر خارجہ کے چھ روزہ دورہ ہندوستان کے موقع پر ہؤا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغان دارالحکومت کے قلب میں ہونے والے حملے کے یہ وقت، طالبان رہنماؤں کے لئے واضح پیغام کا حامل ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی دو زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم شکلوں کے مستقبل کے امکانات، یعنی ہمہ گیر جنگ یا دونوں فریقوں کے ملکی اور بین الاقوامی تحفظات کی بنیاد پر تناؤ کا حل، کے حصول کے امکانات کم ہیں۔ حالیہ جھڑپیں پاکستان کو افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کا متبادل پیدا کرنے کے لیے مزید پرعزم بنا دے گی، چاہے وہ طالبان کے اندر سے ہوں یا باہر سے، اور یہ سوال ہی باہر نہیں ہے کہ پاکستان طالبان پر امریکہ کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤ میں زیادہ فعال حصہ لے گا۔ اس کے برعکس، طالبان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پاکستانی سرزمین میں دہشت گردی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی طاقت میں موجودہ عدم توازن کو پورا کرنے اور بھارت کے قریب جا کر ایک قسم کا خارجی توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔

مستقبل کے ممکنہ حالات میں، دونوں فریقوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تنازع (مکمل جنگ) یا کم سے کم تنازع (مسائل کا حل) [دونوں] کا امکان کم ہے۔ حالیہ جھڑپیں پاکستان کو افغانستان میں موجودہ حکمرانوں کے متبادل کی تلاش کے لئے زیادہ پرعزم کر دیں گی، خواہ وہ طالبان کے اندر سے ہوں یا باہر سے۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ پاکستان، طالبان پر امریکی دباؤ بڑھانے کے عمل میں زیادہ فعال طور پر شامل ہو جائے۔ اس کے جواب میں، توقع ہے کہ طالبان فوجی طاقت کا موجودہ عدم توازن دور کرنے کے لئے پاکستانی علاقے میں دہشت گردی کا ہتھیار استعمال کرنے پر اصرار کریں گے؛ اور اس عدم توازن کو دور کرنے کے لئے ہندوستان کے قریب ہونے کی راہ اپنا کر بیرونی بنیادوں پر توازن (Exogenous balance) برقرار کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha