بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ایک رؤیائے صادقہ کی روداد غزہ کے ہیرو، شہید حاج رمضان (میجر جنرل محمد سعید ایزدی) کی زبانی۔

ایک خواب کا واقعہ شہید سید ہاشم صفی الدین رحمۃ اللہ علیہ نے سنایا۔ انھوں نے یہ واقعہ طوفان الاقصیٰ سے سات مہینے قبل ہمارے دفتر میں آکر سنایا۔

فرمایا: جس وقت ہم قم میں طالبعلم تھے، ـ یہ بات تقریبا 27 یا 28 سال پہلے کی ہے۔ 'ایک لبنانی طالبعلم' جو ہمارے ساتھ تھا، نے خواب دیکھا کہ امام زمانہ (علیہ السلام) نے ظہور فرمایا ہے۔ ندا آئی کہ سب سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے حرم کے صحن میں اکٹھے ہوجاؤ؛ امام(ع) خطاب کریں گے۔

ہم سب اکٹھے ہوئے۔ علماء و مراجع اور عوام سب اکٹھے ہوگئے۔
امام(ع) منبر پر رونق افروز ہوئے، مجمع میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں؛ وہی باتیں ہونے لگیں جن کی طرف احادیث میں اشارے ہوئے ہیں کہ مثلاً کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "ہمارے آقا، آپ جلدی آئے ہیں! اب تو بس ہم اپنے کام میں مصروف تھے! کیوں آخر! ہم تیار نہیں تھے؛ اس طرح کی باتیں۔

امام(ع) ناراض ہوگئے اور منبر سے اترے۔ 'خواب دیکھنے والا' کہتا ہے: میں گیا امام (ع)کے پیچھے، تاکہ انہیں راضی کروں اور واپس لاؤں؛ ہم [امام(ع) کے ہمراہ] جا رہے تھے کہ ہمیں ایک میدان جنگ نظر آیا، بہت سخت جنگ کا میدان، گھمسان کی جنگ۔
کہتے ہیں: میں بہت خوفزدہ ہؤا، امام(ع) سے عرض کیا، یہ کونسی جگہ ہے؟
فرمایا: یہ غزہ ہے، یہ ہمارے اصحاب ہیں۔
اس خواب 27 یا 28 سال پہلے کا ہے۔ جب ابھی اس کی جہادی اسلامی تحریک شروع نہیں ہوئی تھی، اس شکل میں تشکیل ہی نہیں پائی تھی۔

حقیقتاَ اگر انسان اس کا جائزہ لے، کہ اگر امام حسین (علیہ السلام) ہوتے، کہاں تشریف لے جاتے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے؟!
یہ اگر مثلاً ابھی اسی وقت ظہور کریں تو ۔۔۔
یعنی [امام(ع)] لوگوں سے کس سطح اور کس عروج کی مجاہدت و مقاومت و مزاحمت و استقامت کا تقاضا کرتے ہیں، جو مثلاً غزاویوں سے اوپر ہو؛ اس کے مقابلے میں دوسرے خطوں میں انسان دیکھتا ہے کہ کتنی کمزوری ہے، کس قدر۔۔۔ حقیقت ہے کہ فاصلہ ہے [غزاویوں اور دوسروں کے درمیان]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ