اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل شیخ المقاومہ شیخ نعیم قاسم نے اپنی دفاعی حکمت عملی اور لبنان اور خطے کی تازہ ترین صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
- مقاومت ایک جارح اور غاصب دشمن کی قبضہ گری کا رد عمل ہے جو سرزمینوں پر قبضہ کرتا ہے، اور اپنی شرائط دوسروں پر مسلط کرکے توسیع پسندی پر کاربند ہے، نیز اگر لبنانی حکومت لبنانیوں کی حفاظت کرنے سے عاجز ہو تو مقاومت اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
- حزب اللہ دو مسائل پر یقین رکھتی ہے چنانچہ مقاومت اور مزاحمت پر بھی ایمان رکھتی ہے، ایک یہ کہ ہمیں یقین ہے کہ مقبوضہ اراضی کو آزاد ہونا چاہئے اور دوسرا قومی محرک ہے اور وہ یہ کہ ہماری سرزمین پر قبضہ کیا گیا ہے۔
- اسرائیل توسیع پسند ہے وہ مقبوضہ فلسطین پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ لبنان کو بھی نگلنا چاہتا ہے۔
- لبنان میں مقاومت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا آغاز عظیم، وسیع اور مؤثر کامیابیوں سے ہؤا اور اگر مقاومت نہ ہوتی تو قابض دشمن لبنان سے پسپا نہ ہوتا۔
- مقاومت نے گذشتہ 40 برسوں کے دوران بڑی اور مؤثر فتوحات رقم کی ہیں۔ مقاومت نے اسرائیل کو جنوبی سرحدوں پر روک لیا اور اس کو مقاصد حاصل کرنے میں ناکام بنایا، اور ہمارے نوجوانوں نے افسانوی بہادری دکھائی، ہم نے بہت زیادہ قربانیاں دیں اور اسرائیل کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
- مقاومت سے یہ نہیں کہا جاتا کہ آپ نے بڑی قیمت ادا کی اور بہت سارے شہیدوں کا نذرانہ دیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ مقاومت نے امریکہ اور اسرائیل اور مغربی دنیا کے اس عظیم حملے کو کس طرح ناکام بنایا اور اور انہیں جنوبی سرحدوں پر روکے رکھا۔
- جنگ بندی کا سمجھوتہ مقاومت کی استواری اور استقامت کا نتیجہ تھا اور اگر ہماری مزاحمت نہ ہوتی سمجھوتہ حاصل نہ ہوتا اور اسرائیل اپنی جارحیت جاری رکھا۔ آج پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ حزب اللہ اور لبنانی حکومت سمجھوتے کے پابند ہیں لیکن اسرائیل اس کا پابند نہیں رہا ہے۔ حزب اللہ نے سمجھوتے کی پابندی کی ہے اور لبنانی حکومت دنیا کے سامنے کھڑے ہوکر کہہ سکتی ہے کہ اس نے سمجھوتے کی پابندی کی ہے۔
- اسرائیل آج لبنان میں مقاومت کا اسلحہ چھیننے کی باتیں کر رہا ہے جس کا مقصد لبنان کو کمزور کرنا اور اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے تحت اس پر قبضہ کرنا ہے۔
- جو بھی سمجھتا ہے کہ ہم کمزور ہیں، وہ وہم سے دوچار ہؤا ہے۔
- جب تک کہ مقاومت ہے اور اس کے ساتھ قومی فوج اور لبنانی عوام اور حزب اللہ کے حامی کھڑے ہیں، اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔
- ہم حکومت کو سفارتکاری کا موقع دیتے ہیں لیکن یہ وقت لا محدود نہیں ہے۔ ہمارے پاس کچھ آپشنز ہیں، ہم کسی چیز سے نہیں ڈرتے اور اگر تم اپنے رویوں کو جاری رکھو گے تو مناسب وقت پر ہمارے فیصلوں کو بھی دیکھ لوگے۔
- یہ بات غلط ہے کہ ہم اسرائیل کے مقابلے میں ایک خاص وقت تک صبر کریں گے تاکہ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کسی حد تک کامیاب ہوجائے، کون کہتا ہے کہ ہماری بات ہے؟ ہم نے حکمت اور عقل کی رو سے کچھ صبر کیا کیونکہ ہم جانتے ہیں فائدے اور نقصان میں توازن ہوتا ہے، لیکن ہم اس قاعدے کے مطابق عمل نہیں کرتے، بلکہ اپنے موقف کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں اور ہمارا موقف مزاحمت ہے اور بس۔
- ایک خاص فریق اور بعض ناخوشگوار صدائیں لبنان میں سنائی دے رہی ہیں جن کی توجہ اس غلط تصور پر استوار ہے کہ "لبنان کی اصل مشکل مقاومت کا اسلحہ ہے"۔
- مقاومت کا اسلحہ خالصتا اسرائیل دشمن سے نمٹنے کے لئے ہے۔ لبنان کا اصل مسئلہ مقاومت نہیں بلکہ اصل مسئلہ اسرائیل کو اپنے مقبوضہ علاقوں سے نکال باہر کرنا ہے۔ ہم اپنے موقف، قومی یکجہتی، فوج کی تعمیر اور مقاومت کی آمادگی، کے ساتھ قابض دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں، ہم نے ہتھیار نہیں ڈالا اور نہیں ڈالیں گے۔
- ہم کمزور نہیں ہے بلکہ مقابلہ کرنے والے ہیں اور زمین اور انسان کے لئے عزت و وقار کے قائل ہیں۔ جو بھی مقاومت کو نہتا کرنے کا خواہاں ہے وہ اسرائیل دشمن کی بلا اجرت خدمت کر رہا ہے اور اس کا مقصد مقاومت اور فوج کے درمیان فتنہ انگیزی کرنا ہے۔
- مقاومت اور فوج کے درمیان فتنہ انگیزی نہیں ہوگی، ہم کسی کو بھی حزب اللہ یا مقاومت کا اسلحہ چھیننے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تم [اسرائیلی اور اس کے اندرونی گماشتے] اس تصور کو اپنے لغتنامے سے نکال دو۔
- یہ اسلحہ مقاومت کا ستون ہے اور یہ اسلحہ ہمارے ملک کی آزادی کا سبب بنا اور اس نے ہماری ارضی سالمیت کی حفاظت کی۔ ہم ہر اس شخص یا گروہ یا ریاست کا مقابلہ کریں گے جو مقاومت کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے گا اور ہم کسی کو بھی اس کھیل میں گھسنے کا مشورہ نہیں دیتے۔
- جس کے پاس شریف ترین انسان ہیں وہ پوری دنیا والوں سے نہیں ڈرتا جس کے عوام شرافتمندترین ہیں، وہ جم کر کھڑا رہتا ہے جبکہ بزدل مڑ کر دیکھے بغیر میدان سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
- جنگ بندی کا سمجھوتہ دریائے لیتانی کے جنوب تک ہے، اس مسئلے کی طرف پانچ مرتبہ اشارہ ہؤا ہے، پہلے دیکھنا چاہئے کہ کیا اسرائیل جنگ بندی کا پابند ہے، اور پھر مزید بات کریں گے۔ جب اسرائیل اپنے وعدوں اور سمجھوتے کے نکات پر عمل کرے گا، لبنان بھی قرارداد نمبر 1701 کے باقی نکات پر عمل درآمد کا آغاز کرے گا۔
- پہلی بات یہ ہے کہ مذاکرات اور بات چیت کے تمام مراحل میں لبنان کی سالمیت اور خودمختاری، مقبوضہ اراضی کی آزادی اور لبنان کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کا خاتمہ، جیسے اصولوں کو ایجنڈے پر ہونا چاہئے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر قسم کے مذاکرات میں مقاومت اور اس کے اسلحے سے فائدہ اٹھانا لبنان کی دفاعی حکمت عملی کے طور پر مورد تاکید ہونا چاہئے۔
- لیتانی کے جنوب تک جنگ بندی کے سمجھوتے کے سلسلے میں صدر کے ساتھ خطوط کا تبادلہ ہؤا ہے اور پیغامات مثبت رہے ہیں۔ اگر ہمیں بات چیت کی دعوت ملے تو تیار ہونگے لیکن قابض دشمن کے دباؤ کے تحت مذاکرات نہیں کریں گے۔ اسرائیل کو لبنان سے نکلنا ہوگا اور اس کی زمینی اور فضائی جارحیتوں کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اگر ایسا ہؤا تو یہ دفاعی تزویراتی حکمت طے کرنے کی طرف اہم قدم ہوگا۔
- جنوبی لبنان کے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کسی کی طرف سے کوئی احسان نہیں ہے اور ہم یہ نہیں مانتے کہ کوئی اس حوالے سے ہمیں بلیک میل کرے۔
- ہم دفاعی اسٹراٹیجی پر میڈیا میں بحث نہیں کریں بلکہ مذاکرات کی میز پر اپنے اصولوں کو بیان کریں گے۔
- جو کچھ واجب تھا حزب اللہ نے سرانجام دیا، اسرائیل کو بھی اپنے فرائض انجام دینا ہونگے، اور لبنان کی حکومت پر جو کچھ واجب ہے، اس کی تکمیل کرے، سمجھوتے کے دوسرے مرحلے میں داخلے کا تقاضا ہے کہ پہلا مرحلہ مکمل ہوجائے اور پہلے مرحلے میں لبنان سے اسرائیل کا انخلاء، لبنان پر عدم جارحیت اور تعمیر نو کا آغاز ہے۔
- کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیلی تعمیر نو کو اسلحے سے مشروط کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ ہم اسلحے کو تعمیر سے مشروط کرتے ہیں، جس وقت حکومت اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرے گی ہم حکومت کے ساتھ ہونگے چاہے اس کی قیمت جو بھی ہو۔
- لبنان امریکہ کی سرپرستی میں آگے نہیں بڑھ سکتا اور امریکہ کو لبنانی عوام کے ارادے، خودمختاری اور اس کے معاملات میں عدم مداخلت پر کاربند ہونا چاہئے اور ہماری قومی خودمختاری کا احترام کرنا چاہئے۔ امریکہ بڑا شیطان ہے، اور وہ سرطانی پھوڑے "اسرائیل" کا حامہ ہے جس کی بیخ کنی لازمی ہے۔
- فلسطین ہمارے موقف کا حصہ رہے گا، اور غزہ کے عوام کے قتل عام اور غزاویوں کو فاقے کرانے جیسے بھیانک جرائم در حقیقت عرب اور اسلامی دنیا کے منہ پر تھپڑ ہے۔
- اگر لبنانی حکومت جنگ اور طاقت کے ذریعے اسرائیل کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرنے کا فیصلہ کرے اور جنگ کا آغاز کرے تو ہم سرحدوں پر لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
- ہم یمن کے عظیم عوام پر درود و سلام بھیجتے ہیں، کیونکہ آپ [یمنی] مقاومت اور شرافت کی روشنیاں ہیں۔ مقاومت ہمیشہ کے فتح مند ہوگی۔
- ہم ہر اس شخص اور گروپ کا مقابلہ کریں گے جو لبنان کے ہتھیاروں کی طرف دست درازی کرنا چاہے، جیسا کہ ہم نے اسرائیل کا مقابلہ کیا۔ اکر سمجھتے ہو کہ اسرائیل چھوٹی سے اراضی یا مقاومت کا اسلحہ چھیننے کے لئے جارحیت کرے گا تو تم یقینا وہم کا شکار ہوگئے ہو؛ اسرائیل لبنان کے وسیع اراضی پر قبضہ کرنا اور اسے مقبوضہ فلسطین میں ضم کرنا اور لبنانی سرزمین پر یہودی آبادکاروں کے لئے نوآبادیاں تعمیر کرنا چاہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ