18 اکتوبر 2025 - 22:32
جوہری معاہدہ اور عالمی نظام میں گہری دراڑ کا انکشاف / ایران نیا عالمی نظام مرتب کر رہا ہے، مڈل ایسٹ مانیٹر + تصاویر

"اس تبدیلی کے مرکز میں ایک سادہ حقیقت پوشیدہ ہے: 'قانونیت' 'زور زبردستی' سے 'تعاون' کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ مغرب اب بھی پابندیوں، باہر نکالنے اور شرطیں عائد کرنے جیسی تعزیری روشوں پر انحصار کرتا ہے، جبکہ عالمی جنوب باہمی شراکت اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے گرد تیزی سے منظم ہو رہا ہے۔" / "ایران پر پابندیوں کی بحالی کی کوشش شاید مغربی طاقتوں کے لئے قلیل مدتی سیاسی آڑ فراہم کرے، لیکن مغرب کو اس کی طویل مدتی تزویراتی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔" / "ایران  ـ اس تنازع میں ـ اس چیز کو عالم نظام کو از سرنو مرتب کرنے کے لئے عالمی پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے جو کبھی اس کی تنہائی کی علامت تھی۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || مڈل ایسٹ مانیٹر کے تجزیہ کار نے سنیچر کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی میعاد ختم ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو چیز ایران پر جوہری پابندیوں کے خاتمے کے لئے تھی، وہ دنیا کی طاقتوں کے درمیان سیاسی تصادم میں بدل گئی ہے جو "مغرب کے اختیار کے کمزور پڑنے" کو عیاں کرتی ہے۔

جوہری معاہدہ اور عالمی نظام میں گہری دراڑ کا انکشاف / ایران نیا عالمی نظام مرتب کر رہا ہے، مڈل ایسٹ مانیٹر + تصاویر

مورخہ 18 اکتوبر 2025ع‍ کو، ـ جس دن باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 جو ایران کے جوہری معاہدے (برجام) کی بنیاد تھی کا خاتمہ ہونا تھا، دنیا نے خود اپنی جغرافیائی-سیاسی (Geo-political) تقسیم کو گہرا ہوتے ہوئے دیکھا۔

مڈل ایسٹ مانیٹر کے تجزیہ کار کے مطابق، جس چیز کو پابندیوں کے حتمی خاتمے کا سبب بننا تھا ، وہ ایک سیاسی تصادم میں بدل گئی ہے جو مغرب کے اختیار کے کمزور پڑنے اور کثیر قطبی نظام کے ابھار کو نمایاں کرتی ہے۔

ایران کے جوہری منصوبے پر جامع معاہدہ (Joint Comprehensive Plan of Action - JCPOA) کے مطابق، قرارداد 2231 کو آج ہی کی تاریخ پر ختم ہونا تھا اور اس کو ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے ڈھانچے کے آخری آثار و باقیات کو بھی منسوخ کرنا تھا۔

تاہم، اس معاملے کے خاتمے کے بجائے، امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے ـ جنہیں یورپی ٹرائیکا کہا جاتا ہے، ـ یکطرفہ طور پر پابندیاں بحال کرنے کے لئے اقدام کیا ہے اور "اسنیپ بیک" میکانزم کو لاگو کیا ہے جس غیر فعال رہنا تھا۔

جوہری معاہدہ اور عالمی نظام میں گہری دراڑ کا انکشاف / ایران نیا عالمی نظام مرتب کر رہا ہے، مڈل ایسٹ مانیٹر + تصاویر

ایران نے، روس، چین اور غیر وابستہ ممالک کی تحریک کے 120 سے زائد رکن ممالک کی حمایت سے، اس اقدام کی قانونی حیثیت کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو اس ہفتے بھیجے گئے ایک مشترکہ خط میں، تہران، ماسکو اور بیجنگ نے اعلان کیا کہ وہ "قرارداد 2231 کی کسی بھی یکطرفہ توسیع کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے"۔ ان ممالک نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور کثیر الاطراف اداروں کے غلط استعمال کا مصداق قرار دیا۔

تجزیہ کار کے مطابق، ایران کے لئے یہ معاملہ ایک قانونی بحث سے کہیں بڑھ کر ہے اور "یہ ایک سیاسی اعلان ہے جو 'عالمی معیارات پر مغرب کی اجارہ داری کے خاتمے' کو نمایاں کرتا ہے۔"

اس لمحے کی تاریخی اہمیت صرف اس لئے نہیں ہے کہ ایران مغربی دباؤ سے محفوظ ہو گیا ہے بلکہ وہ وسیع حمایت ہے جو ایران کو اب عالمی جنوب کے ممالک میں حاصل ہوئی ہے۔

Brics Summit in Johannesburg, South Africa August 22-24, 2023

غیر وابستہ ممالک کی تحریک کے حالیہ اجلاس میں، 120 ممالک نے اجتماعی طور پر اعلان کیا کہ وہ "قرارداد 2231 کے نفاذ کے تسلسل کو تسلیم نہیں کرتے" اور ان ممالک نے اپنا موقف کو تہران کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا ہے۔

اس طرح کا اجتماعی موقف ایک عشرہ قبل ـ جب امریکی پابندیوں کو تقریباً عالمی وزن حاصل تھا ـ ناقابل تصور تھا ۔ لیکن اب دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتیں، ـ لاطینی امریکہ سے لے کر جنوبی ایشیا تک، ـ مغرب کے انتظآمی اوزاروں اور طریقوں کو ماضی کی متروک و منسوخ یادگار سمجھتی ہیں۔

مڈل ایسٹ مانیٹر کے تجزیہ کار نے مزید لکھا: "یہ واقعہ ایک بہت وسیع ساختی تبدیلی (Structural change) کی نشاندہی کرتا ہے، یعنی 1945 کے بعد بین الاقوامی نظام کا ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا۔"

امریکہ اور اس کے اتحادی، ان اداروں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں جو انہوں نے خود قائم کئے تھے، جبکہ نئی طاقتیں، ـ خاص طور پر عالمی مشرق اور جنوب میں، ـ کثرت پسندی، قومی خودمختاری اور عدم مداخلت پر مبنی ایک نئی قانونیت یا مشروعیت (Legitimacy) پیش کر رہی ہیں۔

تجزیہ کار کے مطابق، قرارداد 2231 کے خلاف ایرانی چیلنج "مغربی قانونونیت کے خلاف ایک وسیع تر عالمی بغاوت کی علامت بن گیا ہے"۔

تہران کے لئے، اس واقعے کا 'وقت' زیادہ اسٹراٹیجک اہمیت کا حامل نہیں ہو سکتا تھا۔ غزہ میں عارضی جنگ بندی اور شرم الشیخ کانفرنس سے ایران کی جان بوجھ کر غیر حاضری کے بعد، ـ جسے تہران نے مغربی ثالثی کو جواز پیش کرنے کے لئے "سیاسی میلہ" قرار دیا، ـ ایران نے روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کر دی ہے۔

سمت بندی میں یہ تبدیلی اس وقت ہو رہی ہے جب متبادل اداروں ـ جیسے برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم ـ کی کشش بڑھ رہی ہے، جہاں ایران کو مغربی شرائط سے پاک ڈھانچے نظر آ رہے ہیں۔

تہران کا طویل المدتی نقطہ نظر، ـ جیسا کہ بیجنگ اور ماسکو کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون کے معاہدوں میں بیان ہؤا ہے، ـ متوازی مالیاتی اور سلامتی ڈھانچوں کو متعارف کروانا ہے جو مغربی پابندیوں اور سیاسی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔

غیر وابستہ ممالک کی تحریک کا موقف اس راستے کو تقویت دے رہا ہے۔ حالیہ عشروں میں پہلی بار، ایک اجتماعی بلاک ـ جو دنیا کی اکثریتی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے، ـ نے کھل کر بین الاقوامی قوانین کی امریکی اور یورپی تشریح کو چیلنج کر دیا ہے۔

یہ بجائے خود عالمی حکمرانی کے دو حریف نظاموں کے درمیان قطبی تقسیم کو تیز کر رہی ہے، ایک نظام کی جڑیں مغرب کے زیر تسلط اداروں میں جڑی ہوئی ہیں اور دوسرا نظام یوریشیا اور عالمی جنوب کے محور میں جنم لے رہا ہے اور ابھر رہا ہے۔

جغرافیائی-سیاسی نقطہ نظر سے، یہ دراڑ برسوں کی معاشی علیحدگی اور تکنیکی مسابقت کے بعد طاقت کی عالمی سطح پر دوبارہ تقسیم کی عکاسی کرتی ہے۔

اس تجزیہ کار کے مطابق، پابندیاں جو کبھی مغربی طاقت کی علامت تھیں، اپنی تسدیدی صلاحیت (Deterrence)  کا اثر کھو چکی ہیں۔ ایران جو کبھی الگ تھلگ تھا، اب خود کو پابندیوں کا شکار یا مغرب سے مایوس ممالک کے بڑھتے ہوئے اتحاد کا حصہ سمجھتا ہے جن میں روس، چین اور برکس کے کئی اراکین شامل ہیں، جو اجتماعی طور پر باہمی تعامل کے قوانین کو دوبارہ لکھ رہے ہیں۔

اس تبدیلی کے مرکز میں ایک سادہ حقیقت پوشیدہ ہے: 'قانونیت' 'زور زبردستی' سے 'تعاون' کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ مغرب اب بھی پابندیوں، باہر نکالنے اور شرطیں عائد کرنے جیسی تعزیری روشوں پر انحصار کرتا ہے، جبکہ عالمی جنوب باہمی شراکت اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے گرد تیزی سے منظم ہو رہا ہے۔

جوہری معاہدہ اور عالمی نظام میں گہری دراڑ کا انکشاف / ایران نیا عالمی نظام مرتب کر رہا ہے، مڈل ایسٹ مانیٹر + تصاویر

اس تناظر میں، قرارداد 2231 کی توسیع کے خلاف ایران کی مزاحمت ایک گہرے اخلاقی جدوجہد کی علامت ہے: یعنی اس بات سے انکار کہ قانونیت کا تعین صرف ان لوگوں کے ذریعے ہو رہا ہے، جن کے پاس زیادہ طاقت، ہے۔"

لیکن اس کے جیو پولیٹیکل اثرات ایران کے جوہری معاملے سے کہیں زیادہ وسیع ہیں۔ اگر 120 ممالک مغرب کی حمایت یافتہ قرارداد کو مسترد کر سکتے ہیں، تو یہ ان اداروں کے لئے قانونیت کے بحران کی نشاندہی کرتا ہے جو عالمی نظم کو برقرار رکھنے کے لئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جو کبھی اتفاق رائے کا میدان تھی، اب 'تقسیم کا مرکز' بننے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس لحاظ سے "سنیپ بیک" تنازع صرف ایران کے حقوق کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ کثیرالجہتیت (Multi-polarity) کے مستقبل کے بارے میں ہے؛ [جس میں ایران تنہا نہیں ہے بلکہ اس کے کئی بڑے علمبردار اور داعی ہیں جو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں]۔

پابندیوں کی بحالی کی کوشش شاید مغربی طاقتوں کے لئے قلیل مدتی سیاسی آڑ فراہم کرے، لیکن مغرب کو اس کی طویل مدتی تزویراتی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

Uzbekistan summit to decide on Iran's full SCO membership: Deputy FM - IRNA  English

ہر یکطرفہ اقدام اُس نظام کی ساکھ کو کمزور مخدوش کردیتا ہے جس کی حفاظت کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ ایران اور اس کے شراکت داروں کے لئے، یہ کٹاؤ ایک بحران نہیں بلکہ عالمی حکمرانی کو زیادہ منصفانہ اور کثیر القطبی بنیادوں پر دوبارہ متعین کرنے کا موقع ہے۔

تجزیہ کار اس بات پر زور دیتا ہے کہ قرارداد 2231 اب اتفاق رائے کی نمائندگی نہیں کرتی، بلکہ تنازع کی علامت بن گئی ہے، اور "ایران  ـ اس تنازع میں ـ اس چیز کو عالم نظام کو از سرنو مرتب کرنے کے لئے عالمی پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے جو کبھی اس کی تنہائی کی علامت تھی۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: محمد رضا جعفری

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha