12 ستمبر 2025 - 23:38
مصر مذاکرات میں گروسی کے لئے سرخ لکیر کی ترسیم / جب جنگ 'سفارتی عقلیت' کو مٹا نہیں سکتی

اب، رافائل ماریانو گروسی اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے لئے جنگ کے بعد کی دنیا ایک نئی دنیا ہے، اور اسلامی ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ اعتراض کا عمل برقرار رکھتے ہوئے اور قومی مفادات کا خیال کرتے ہوئے بھی، سفارتی طریقوں سے اپنے مسائل اور بدگمانیوں کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے مصر میں جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ ایران کے نئے طریقہ کار پر معاہدے کے بعد اہم باتیں واضح کر دیں۔

انھوں نے کہا ہے: "یہ معاہدے کا نیا فریم ورک یا "طریقہ کار" (Modality) اسلامی مشاورتی اسمبلی (اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمان) کے قانون سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے اور بالکل اسی سمت میں آگے بڑھتا ہے جس کا قانون نے تعین کیا ہے۔ یہ معاہدہ ایران کے سلامتی کے خدشات کو مد نظر رکھتا ہے، ایران کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور ایجنسی کے ساتھ تعاون کے لئے ایک نئی شکل کو متعین کرتا ہے؛ یہ سب ایران کے بنیادی مطالبات تھے اور اب اس معاہدے میں شامل ہیں۔

عراقچی نے واضح کیا: "مجھے اس بات پر زور دینا چاہئے کہ اس معاہدے کی بنیاد پر ایجنسی کے انسپکٹرز کو کوئی رسائی نہیں دی جائے گی؛ سوائے بوشہر پاور پلانٹ کے معاملے کے، جو پہلے ہی ایندھن کی تبدیلی کی وجہ سے اور سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل (ایجنسی) کی قرارداد کے مطابق چل رہا تھا، اور معائنہ ابھی تک جاری ہے۔"

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اس مسئلے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ـ مصر-سمجھوتہ فی الحال ایجنسی کو معائنہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور ایران مستقبل کی رپورٹوں کی بنیاد پر 'اپنے وقت پر' رسائیوں کی نوعیت پر بات چیت کرے گا۔ یہاں تک کہ اس معاہدے میں ایجنسی کی طرف سے معائنے اور رسائی کی شکل اور کیفیت کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں ہوئی ہے، اور اس مسئلے کو مستقبل میں الگ الگ مذاکرات تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔"

عراقچی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "اس معاہدے کے بارے میں ایک بہت اہم نکتہ خاص طور پر قابل ذکر ہے: جیسا کہ میں نے پریس کانفرنس میں کہا، یہ دستاویز اور اس دستاویز کی حیات اس بات پر مشروط ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کوئی دشمنانہ کارروائی نہ کی جائے۔ مثال کے طور پر، اگر "ٹریگر میکانزم" کے نام سے جانا جانے والے طریقہ کار نافذ العمل ہوجائے، تو اس دستاویز کا نفاذ یقینی طور پر رک جائے گا۔ اور اگر ٹریگر میانزم نافذالعمل ہؤا تو 'ایران اس پر کیا ردعمل ظاہر کرے گا' اور 'اس کا رویہ کیا ہوگا' اس کا فیصلہ موقع پر کیا جائے گا۔"

ترسیم خط قرمز برای گروسی در مذاکرات مصر/ وقتی جنگ نمی‌تواند عقلانیت دیپلماتیک را محو کند

انھوں نے مزید کہا: "میں نے مسٹر گروسی کے ساتھ مذاکرات میں، ـ مصری دوستوں کے ساتھ ملاقات کے وقت بھی اور پریس کانفرنس میں بھی ـ یہ مسئلہ واضح اور دوٹوک طور پر اٹھایا تھا کہ اس معاہدے کی درستگی صرف اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ ایران کے خلاف کوئی معاندانہ اقدام نہ کیا جائے؛ ٹریگر میکانزم کا نفاذ بھی ان ہی معاندانہ اقدامات میں شامل ہے۔" [1]

وزیر خارجہ کے ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ "مصر-سمجھوتہ" ایران کے سفارتی نظام کا ایک مضبوط اور ثابت قدم رویے کا نتیجہ تھا جس نے انتہائی کامیابی کے ساتھ ـ خاص طور پر جنگ کے بعد کی صورتحال میں ـ ملکی حقوق کے حصول کی طرف اہم قدم اٹھایا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ ابتدائی معاہدہ ٹریگر میکانزم کی منسوخی سے مشروط ہے اور اس میں ایٹمی توانائی کے ادارے کے لئے کسی نئے معائنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی مذاکراتی ٹیم ایک تیر سے دو شکار انجام دینے میں کامیاب رہی ہے، اور اہداف کے حصول کے اس عمل میں یقیناً اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق سفارتی تصورات کو بھی مٹا دے گی۔

اس پیشہ ورانہ سیاست کاری نے، جسے پارلیمنٹ اور سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کی قانونی حمایت حاصل تھی، آشکار کر دیا کہ "ایرانی بالادستی" ـ 12 روزہ ایرانی-اسرائیلی تنازعے کے باعث ایجنسی کے سربراہ گروسی کے خلاف انتہائی منفی آراء کے باوجود ـ سفارت کاری کے تعطل سے نکلنے میں کامیاب رہی ہے اور ساتھ ہی تعامل کے نئے طریقہ کار کا تعین کر چکی ہے اور رافائل گروسی کے لئے ٹریگر میکانزم کے حوالے سے شرائط متعین کئے ہیں اور یوں اپنا احتجاج بہترین طریقے سے بیان کیا۔

درحقیقت اب، رافائل ماریانو گروسی اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے لئے جنگ کے بعد کی دنیا ایک نئی دنیا ہے، اور اسلامی ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ اعتراض کا عمل برقرار رکھتے ہوئے اور قومی مفادات کا خیال کرتے ہوئے بھی، سفارتی طریقوں سے اپنے مسائل اور بدگمانیوں کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

بے شک سفارت کاری کے ہنگامہ خیز ماحول کے ہر لمحے کی اپنی خاص ضروریات ہوتی ہیں، لیکن جس عقلیت نے مصر-مذاکرات کو قبول کیا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا، وہ وہی عقلیت ہے جس نے جنگ سے پہلے امریکہ سے بالواسطہ مذاکرات کیے اور ان بہانہ سازوں اور مکاروں کا بہانہ چھین لیا اور مکر ناکام بنایا جو کہنا چاہتے تھے کہ ایران مذاکرات نہ کرنے کی وجہ سے جنگ کا شکار ہؤا، یہ وہی عقلیت ہے جس نے دشمنوں کو الگ تھلگ کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha