بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، آج دوپہر (سوموار یکم ستمبر 2025ع) کو شنگھائی پلس کی افتتاحی اجلاس ایران کے صدر جمہوریہ مسعود پزشکیان کی موجودگی میں منعقد ہؤا۔
مسعود پزشکیان نے شنگھائی پلس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری آج کی دنیا کو عالمی حکمرانی کی ایک نئی سمجھ اور نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا: ایسا منصوبہ جس کو سب سے پہلے 'طاقت کے محور پر قائم منطق' سے دور ہونا چاہئے، اور 'مساوات اور انصاف پر مبنی منطق' کو اس کا متبادل بنانا چاہئے۔
خوش قسمتی سے، شنگھائی تعاون تنظیم کے مکالموں اور بیانات میں غالب بیانات، تمام اراکین کی توجہ کے بدولت، ہمیشہ انصاف اور ترقی کے ذریعے امن اور سلامتی حاصل کرنے پر استوار رہے ہیں، اور اس لحاظ سے ہمیں امید ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک مشترکہ فہم و ادراک حاصل کرنے اور متعدد میکانزم قائم کرنے کے بعد، اہم عالمی مسائل، خاص طور پر ان مسائل میں کردار کی کیفیت پر زیادہ زور دے گی جو دنیا میں انصاف اور ترقی کو واضح طور پر مجروح کر رہے ہیں، اور اپنا کردار زیادہ صراحت کے ساتھ پیش کرے گی۔
شنگھائی پلس کے افتتاح اجلاس سے صدر اسلامی جمہوریہ ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب صدر،
محترم صدور اور وزیر اعظم،
اعلیٰ سطحی وفود
شنگھائی تعاون تنظیم کا سالانہ اجلاس اپنے قیام سے لے کر اب تک ان ممالک کے درمیان بات چیت اور رائے کے تبادلے کا ایک بے مثال ذریعہ رہا ہے جن کی مشترکہ فکر امن، تعاون اور زیادہ منصفانہ اور محفوظ دنیا کی تعمیر کے لئے ہم آہنگ کوشش اور تعاون سے عبارت ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم نے پچھلی تین دہائیوں میں علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کے ایک نئے نمونے (ماڈل) کو فروغ دیا ہے جو لازمی طور پر دشمنی پیدا کرنے اور شناختی تصادم پر نہیں، بلکہ تعاون، باہمی اعتماد اور تنوع کے احترام کی بنیاد پر تشکیل پایا ہے۔ جبکہ سرد جنگ کے بعد کی دنیا، یکطرفہ تسلط جمانے کی کوششوں کی وجہ سے، انسانوں کی یہ کوشش پوری نہ کر سکی کہ زیادہ پر امن دنیا قائم ہو؛ اسی اثناء میں شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کے تجربے نے یہ امید زندہ رکھی ہے کہ ثقافتی-تہذیبی تنوع اور مختلف سیاسی، معاشی و فوجی حیثیت رکھنے والے ممالک ایک دوسرے پر برتری جتائے بغیر اور مساوی حیثیت سے، باہمی تعامل اور تعاون کر سکتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ تعاون، خاص طور پر ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے درمیان، عالمی چیلنجوں ـ بشمول معاشی عدم مساوات، پابندیوں کے دباؤ، موسمیاتی تبدیلیوں اور بین الاقوامی سلامتی کے بحرانوں ـ کا ایک عملی جواب ہو سکتا ہے۔
شنگھائی پلس کے فارمیٹ میں دیگر ہم خیال ممالک کے ساتھ تنظیم کی بات چیت کو وسعت دینا ان تعاونوں کو مزید گہرائی اور فروغ دینے کا ایک بیش قیمت موقع ہے۔
محترم ساتھیو،
شنگھائی کو مصنوعی ذہانت کا مرکز بننا چاہئے
ہماری دنیا کو عالمی تعاون کی ایک نئی سمجھ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسا منصوبہ جس کو سب سے پہلے مرحلے میں طاقت پر مبنی منطق سے دور ہو کر مساوات اور انصاف پر مبنی منطق کو اپنانا چاہئے۔ تمام ممالک، چاہے ان کا رقبہ یا دولت کچھ بھی ہو، عالمی حکمرانی میں برابر کے حقوق اور نمائندگی کے مستحق ہوں۔ خوش قسمتی سے، شنگھائی تعاون تنظیم کے مکالموں اور بیانات میں غالب بیانات تمام اراکین کی توجہ کے بدولت ہمیشہ انصاف اور ترقی کے ذریعے امن اور سلامتی حاصل کرنے پر استوار رہے ہیں۔ اس لحاظ سے ہمیں امید ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک مشترکہ فہم و ادراک حاصل کرنے اور متعدد میکانزمز قائم کرنے کے بعد، اہم عالمی مسائل ـ خاص طور پر ان مسائل میں کردار کی کیفیت پر زیادہ زور دے گی جو دنیا میں انصاف اور ترقی کو واضح طور پر مجروح کر رہے ہیں ـ اور اپنا کردار زیادہ صراحت کے ساتھ پیش کرے گی۔
اس کے علاوہ، جنوبی عالمی ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کے عمل کو ـ خاص طور پر مالی تعاون اور بنیادی ڈھانچے میں مشترکہ سرمایہ کاری کے شعبوں میں، ـ تنظیم کے ایجنڈے پر سنجیدگی سے شامل کیا جانا چاہئے۔ ہمیں یقین ہے کہ تنظیم موجودہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے جدید ٹیکنالوجیز اور مصنوعی ذہانت کے استعمال کے میدان میں ایک مربوط اور فیصلہ کن مرکز بن سکتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران بھی عظیم سائنسی سرمایے، توانائی کے وسائل اور ٹرانزٹ کی حیثیت رکھنے کی وجہ سے ان شعبوں میں تعاون کے لئے ضرورت کے مطابق، تیار ہے۔
ایران مشرق اور مغرب کے درمیان رابطے کے مرکز میں واقع ہؤا ہے، جس نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت ٹرانزٹ راستوں کو جوڑنے کے لئے ایک بڑے جغرافیائی فائدے کی بنیاد ہے۔ یہ حقیقت ایران میں بے مثال استحکام اور سلامتی کے ساتھ مل کر، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی مواصلاتی لائنوں کو مربوط کرنے، اور اس منصوبے میں ایران کے انضمام کی ایک اہم بنیاد بن سکتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران پرامن جوہری مسائل کے حل کے لئے تیار ہے
ایرانی عوام نے گذشتہ برسوں اور خاص طور پر گذشتہ چند مہینوں میں طاقت کے ذریعے امن مسلط کرنے کی کوششوں کے کڑوے ذائقے کو مختلف پابندیوں اور فوجی جارحیت کی صورت میں، چکھ لیا ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے قانونی حقوق کے دائرے میں کام کرتے ہوئے ہمیشہ مکالمے اور مذاکرات کے ذریعے موجودہ ابہامات دور کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ تاہم، گذشتہ جون میں ہم پر اس وقت جارحیت کی گئی جب ریاستہائے متحدہ امریکہ منافقت کے ساتھ ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھا تھا؛ اور آج ہمیں یورپی ممالک کی طرف سے بین الاقوامی پابندیوں کی واپسی، کی دھمکی دی جا رہی ہے؛ حالانکہ انہوں نے اپنے وعدوں پر کوئی عملی اور مؤثر عملدرآمد نہیں کیا، اور اس کے برعکس، اسلامی جمہوریہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کی سب سے زیادہ بین الاقوامی نگرانی کی گئی ہے۔ اسی بنا پر ہماری توقع یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم اور دنیا کے آزاد ممالک ان ناانصافیوں کے خلاف اپنا مؤثر اور ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔
میں یہاں اعلان کرتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ اپنے پرامن جوہری پروگرام کے حل کرنے اور ایک سفارتی حل تلاش کرنے کے لئے تیار ہے اور رہے گا۔ امریکہ اور صہیونی ریاست کی طرف سے ناکام فوجی حملے کا سہارا لینے سے ثابت ہؤا ہے کہ فوجی آپشن قابل عمل نہیں ہے اور فوجی جارحیت کو ایرانی عوام کی بہادرانہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسنیپ بیک کے نام سے مشہور میکانزم کا سہارا لینا صرف حالات کو مزید پیچیدہ اور تناؤ کو بڑھانے کا باعث ہوگا۔ ہم امریکہ اور یورپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ تصادم پر مبنی حل کو ترک کر دیں اور متوازن اور منصفانہ حل تک پہنچنے کے لئے سفارت کاری کی طرف رجوع کریں۔
ہم ایک بار پھر زور دے کر کہتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو اپنے اردگرد کی دنیا میں امن سازی کی پہل (Peacebuilding initiative) کو زیادہ منظم طریقے سے آگے بڑھانا چاہئے۔ تنظیم کو دنیا کے سب سے اہم آزاد اور انصاف پسند اداروں میں سے ایک کے طور پر ـ خاص طور پر مغربی ایشیا کے خطے میں پرانے بحران کے انتظام اور غزہ اور سارے فلسطین میں معصوم انسانوں کے مربوط اور بامقصد (Targetted) قتل عام اور مصنوعی بھکمری جیسے دردناک مسئلے سے نمٹنے کے لئے ایک مخصوص اور جامع منصوبہ پیش کرنا چاہئے۔ آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بلاشبہ انسانی تاریخ کے صفحے پر ایک سیاہ دھبہ اور تمام انسانوں اور ان حکومتوں کے لئے ایک سخت آزمائش ہے جو ان وحشیانہ جرائم کے عینی گواہ ہیں۔ یہ بات اب بالکل واضح ہو چکی ہے کہ فلسطین کے مسئلے میں ایک منصفانہ حل کے بغیر، دنیا میں امن اور انصاف کے قیام کا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔ ہمارا مجوزہ حل ہمیشہ سے یہی ہے کہ فلسطین کے تمام اصل باشندوں کی موجودگی میں آزادانہ انتخابات اور رفرینڈم کے ذریعے حق خودارادیت کے حصول کی حمایت کی جائے، جو بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں میں بھی شامل ہے۔ ہم ہمیشہ اس حل کی حمایت کرتے ہیں۔
اختتام پر، میں کامیاب اجلاس کی میزبانی کے لئے چینی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، عالمی حکمرانی میں اصلاحات کی ضرورت کے حوالے سے محترم صدر "شی جن پنگ" کے تعمیری نقطہ نظر کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کی ہم آہنگی کا اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو عالمی حکمرانی کی پہل کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایسے نقطہ نظر پیش کیے جانے کو زیادہ منصفانہ دنیا کی طرف بڑھنے کے لئے ایک مؤثر قدم سمجھتا ہے۔
آپ کی توجہ کا شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ