23 ستمبر 2025 - 21:24
ایران کے دفاع میں روس اور چین کے مشترکہ بیان کی بنیادی اہمیت

روس اور چین نے اپنے انتہائی اہم بیان میں کہا ہے: "اسنیپ بیک کے نفاذ کی رو سے، سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے برعکس یا اس سے متصادم، کسی بھی قدم یا کارروائی کی وجہ سے، اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر بین الاقوامی قانونی ذمہ داریاں عائد نہیں ہوتی۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || جبکہ یورپی ممالک امریکہ کی خوشامد کے لئے ـ ایران کے ساتھ 6+1 کے جامع ایکش پلان (JCPOA) میں 'ٹریگر میکانزم' کا استعمال کر چکے ہیں اور ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی کا عمل شروع کر چکا ہے؛ چین اور روس کی طرف سے ایک انتہائی اہم اورمعنی خیز واقعات رونما ہوئے ہیں۔ حن کی اہمیت ایران کے دفاع سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس کے موقع پر چین میں، ایران، روس اور چین کے وزرائے خارجہ نے ایک ثلاثی بیان پر دستخط کیے۔ اس بیان میں یورپی ممالک کی طرف سے اقوام متحدہ میں ٹرگر میکانزم کے عمل کو بنیادی طور پر غیر معتبر اور ناقابل توجہ قرار دیا گیا ہے۔ اس اہم متن میں کہا گیا ہے:

"سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے برعکس یا اس سے متصادم، کسی بھی قدم یا کارروائی کی وجہ سے، اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر بین الاقوامی قانونی ذمہ داریاں عائد نہیں ہوتی۔"

اس اہم جملے کا مطلب یہ ہے کہ چین اور روس خود کو اقوام متحدہ کی بحال شدہ پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دے رہے ہیں اور اس [اسنیپ بیک اور اس کے وکالت کار ممالک کے اقدام] کو بین الاقوامی قانون کے دائرہ کار سے باہر بتا رہے ہیں۔

یہ خط وزرائے خارجہ کی سطح پر تیار کیا گیا ہے اور سرکاری طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کے نام لکھا گیا ہے۔ یہ سلامتی کونسل میں دستاویز نمبر S/2025/546 اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دستاویز نمبر A/79/1004 کے تحت جمع کرایا گیا ہے۔

اس خط میں کئی دیگر اہم نکات بھی شامل ہیں، اور واضح کیا گیا ـ کہ امریکہ جامع ایکش پلان (JCPOA) سے پیشگی الگ ہو چکا تھا اور پہلا قانون شکن اور ضابطہ شکن تھا؛ ایکش پلان پر عمل عملدرآمد کے وقت تین یورپی ممالک اپنی کسی ذمہ داری کو بھی نہیں نبھا سکے اور تینوں نے فاش خلاف ورزویوں کا سلسلہ جار رکھا، اور اسی حال میں ایران نے کسی ایکش پلان کی کسی شق کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کی بلکہ پلان میں مندرجہ شقوق کی بنیاد پر، ازالے کے عنوان سے کچھ اقدامات کیے ـ اس لئے کہ قانونی دلائل مضبوطی سے پیش کیے جا سکیں۔

اس خط میں 1971 میں نمیبیا کے معاملے میں مشاورتی رائے شماری کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جس میں بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے اس معاہدے سے قانونی فائدہ اٹھانے کے عدم امکان کو واضح کیا گیا ہے، تاکہ یورپی ممالک کے مطالبے پر ـ بنیاد بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں ـ سوال اٹھایا جا سکے۔

اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ اور اسنیپ بیک کے لئے ووٹنگ کے دن چین اور روس کے نمائندوں کے سخت بیانات اور ٹھوس جملے، بحال شدہ پابندیوں کی عدم تعمیل کے حوالے سے ان کے سنجیدہ عزم کو بالکل عیاں و نمایاں کر دیتے ہیں۔ سلامتی کونسل سیکرٹریٹ میں ان بیانات کی باضابطہ رجسٹریشن ان دونوں ممالک کو مستقبل میں ہونے والی خلاف ورزیوں میں قانونی بنیاد بھی فراہم کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 'پابندی نمبر 1737' کی پابندیوں میں مذکورہ، کمیٹی کو ـ جو مستقبل میں ایران کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں، عملدرآمد کی راہ میں ـ ان دونوں ممالک کی طرف سے شدید مسائل اور رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور عملی طور پر اس کی کا اثر کم از کم ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس امکان کا ذکر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی آفیشل ویب سائٹ پر ایک تجزیاتی مضمون میں بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ہتھیاروں کی پابندی کا مسئلہ جو بحال شدہ پابندیوں میں موجود ہے، اسی قانونی استدلال کی روشنی میں منسوخ کر دیا جائے گا؛ کیونکہ ایران اپنے درآمد شدہ ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان کا تقریباً تمام تر سامان ان دونوں ممالک یا ان سے منسلک ممالک سے خریدتا ہے اور اگر یہ دونوں اسنیپ بیک کے نفاذ کی وجہ سے بحال ہونے والی پابندیوں پر اس پر عمل درآمد نہ کریں تو سپلائی کے سلسلے میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔

فوجی سازوسامان بنانے والے دوسرے ممالک ـ جنہوں نے چالیس سال کے ساتھ ساتھ کام نہیں کیا ہے ـ اگر ان پابندیوں کی تعمیل کریں بھی تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ تیل پر اقوام متحدہ کی کوئی پابندی نہیں ہیں، اور اقوام متحدہ کی کوئی پابندی ہوتی اور اسنیپ بیک کے ذریعے بحال ہو جاتی تو بھی ٹریگر کے بارے میں ـ ایران سے سب سے زیادہ تیل خریدنے والے ملک ـ چین کے مذکورہ تحفظات کے ہوتے ہوئے، اس ملک کو  ٹریرگر میکانزم کے معاملے می ایران سے تیل کی خریداری کے حوالے سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔"

اس کے علاوہ، مذکورہ خط اور سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان کی حالیہ قانونی کوشش ـ برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے دیگر ممالک کے لئے ـ اقوام متحدہ کی بحال ہونے والی پابندیوں کی تعمیل نہ کرنے کا قانونی حوالہ ہو سکتی ہے۔ یعنی یہ ممالک، جو اس وقت مغربی بلاک کے زمرے میں شمار نہیں ہوتے؛ اور ٹرمپ کے امریکہ کے ساتھ گہرے اختلافات بھی ہیں؛ ادھر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نفاذ کی درخواستوں کے جواب میں دو اہم ارکان کی طرف سے قانونی حوالہ جات اور، اور بحال شدہ پابندیوں کی عدم تعمیل کی طرف اشارے بھی موجود ہیں۔

یہی وہ خطرناک نقطہ ہے جو مغرب کے لئے معرض وجود میں آیا ہے اور ایران کے معاملے میں اس کا ایک وسیع تر مفہوم ہے جو آنے والے واقعات کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ درحقیقت، اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کا ڈھانچہ، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد کے مغربی نظام کا پیدا کردہ ہے اور جسے امریکہ اپنی قانونی طاقت کے اظہار کے لئے استعمال کرتا رہا ہے، اب ان دو بڑی طاقتوں کی جانب سے چیلنج کیا جا رہا ہے۔

امریکی سیاسیات دان "اسٹیفن  والٹ" (Stephen Walt) جیسے نامور مغربی تزویراتی ماہرین کے بقول: بہت زیادہ باعث تشویش بات یہ ہے کہ ٹرمپ اور امریکی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے نتیجے میں ایسے نئے اصول وجود میں آ سکتے ہیں جو اب مغرب کے بنائے ہوئے نہیں ہوں گے اور ان ممالک ـ خاص طور پر امریکہ ـ کے کے مفادات کی ضمانت نہیں دیں گے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسنیپ بیک کے معاملے میں یورپ کا ٹرمپ کا ساتھ دینا اس سلسلے کی پہلی کڑی تھی، بالخصوص اگر روس اور چین اپنے بیان پر قائم رہیں۔ فی الوقت، مغربی بلاک کے ساتھ ان دو ممالک کے وسیع پیمانے پر تنازعات کو دیکھتے ہوئے، ان کے رہنماؤں کے پاس ایسا کرنے کی کافی حوصلہ افزائی موجود ہے۔ سلامتی کونسل کے ویٹو والے ممالک کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کرنے اور بین الاقوامی قانون میں ایک نئی روایت قائم کرنے میں ایران کا کردار انتہائی قابل قدر ہے، کیونکہ عام طور پر ایسے واقعات بعد کے معاملات میں حوالے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔

یعنی دوسرے ممالک مستقبل میں سلامتی کونسل کی سطح پر تنازعات میں ان استثناؤں کا حوالہ دے کر اس کے پابندیوں اور ان سے متعلقہ اصولوں سے انحراف کریں گے۔

یہ صورت حال ـ خاص طور پر ٹرمپ  کے ہاتھوں ـ بین الاقوامی اداروں کے مزید کمزور ہونے کے ساتھ، مغربی قانونی نظام کے کے، زوال و انحطاط کی طرف جانے، کو عیاں کرتی ہے۔ اس کے باوجود، دیکھنا واقعات کا دھارا کہاں پہنچتا ہے، لیکن یہ پیش رفت کہاں تک پہنچتی ہے۔ لیکن یہ یقیناً ایک قابل قدر اور قابل ذکر پیش رفت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: مصطفیٰ غنی زادہ، میڈیا کارکن

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha