دنیا بنیادی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ جو نظام کسی زمانے میں لبرلزم اور امریکی بالادستی کے گرد تشکیل پایا تھا، اس وقت اندرونی فرسودگی، قانونیت کے بحران اور اخلاقی شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے۔
"اس تبدیلی کے مرکز میں ایک سادہ حقیقت پوشیدہ ہے: 'قانونیت' 'زور زبردستی' سے 'تعاون' کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ مغرب اب بھی پابندیوں، باہر نکالنے اور شرطیں عائد کرنے جیسی تعزیری روشوں پر انحصار کرتا ہے، جبکہ عالمی جنوب باہمی شراکت اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے گرد تیزی سے منظم ہو رہا ہے۔" / "ایران پر پابندیوں کی بحالی کی کوشش شاید مغربی طاقتوں کے لئے قلیل مدتی سیاسی آڑ فراہم کرے، لیکن مغرب کو اس کی طویل مدتی تزویراتی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔" / "ایران ـ اس تنازع میں ـ اس چیز کو عالم نظام کو از سرنو مرتب کرنے کے لئے عالمی پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے جو کبھی اس کی تنہائی کی علامت تھی۔"
روس اور چین نے اپنے انتہائی اہم بیان میں کہا ہے: "اسنیپ بیک کے نفاذ کی رو سے، سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے برعکس یا اس سے متصادم، کسی بھی قدم یا کارروائی کی وجہ سے، اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر بین الاقوامی قانونی ذمہ داریاں عائد نہیں ہوتی۔"
شانگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے چین میں اجلاس اور ایران اور روس کی شرکت سے فوجی پریڈ کے بعد، یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کی سربراہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ یہ اتحاد عالمی نظم و ضبط کو چیلنج کر رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں، ایران اور چین کے تعلقات قربت کی جانب ایک فطری اور گہری روند طے کر چکے ہیں۔ دنیا کے دو قطبی نظم سے بعد از دو قطبیت کی جانب حرکت، اور ممالک کی کثیر قطبی نظام تشکیل دینے کی کوششوں نے ایران اور چین کے قریب آنے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ روند تقریباً 2010 سے شروع ہوئی اور خطے میں حالیہ تبدیلیوں، خاص طور پر غزہ کے واقعات اور مغربی ایشیا کی عسکری ردعمل، سے مزید تیز ہو گئی ہے۔