بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || نام نہاد غزہ امن منصوبے کو 'پکا کرنے کے لئے' ٹرمپ کا دورہ مصر، شرم الشیخ پتلی تماشے (Puppetry) میں شرکت کرنے والے سربراہان مملکت کی تذلیل پر منتج ہؤا؛ ظاہر ہے کہ جو نہیں آئے بخیر و عافیت اور آبرومند رہے۔ اگرچہ کچھ مغربی ابلاغی اداروں اور عالم اسلام کے کچھ 'گھریلو مرعوبین [دہشت زدگان]' نے ٹرمپ کو غزہ کے بحران کے حل کے لئے ایک 'طاقت' اور 'پہل' کے طور پر پیش کیا اور ان کے اسی رجحان سے متاثر ہو کر نرگسیت زدہ جواری نے خود کو امن کے نوبل انعام کا حقدار ٹہرا دیا تھا، لیکن اس منصوبے کے طول و عرض اور دو سالہ غزہ جنگ کی پیشرفت ٹرمپ اور نیتن یاہو کی مشترکہ شکست کو عیاں کرتی ہے، جو محور مقاومت کو شکست دے کر 'گریٹر اسرائیل' کے منصوبے کے عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے؛ اگرچہ یہ سب دسوں ہزار فلسطینیوں، لبنانیوں اور دیگر خواتین اور بچوں کی شہادت کی قیمت پر حاصل ہؤا ہے۔
تاہم، ٹرمپ نے مقبوضہ علاقے اور مصر کے دورے کے دوران، اور ایران کے خلاف اپنے معاندانہ موقف اور بار بار کی دھمکیوں کے دوران ایران کے ملک وملت کے حساب کتاب اور اندازوں کو کو درہم برہم کرنے اور ملک کو "نہ جنگ نہ امن" کی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا مقصد ایرانی قوم کی یکجہتی، ہم آہنگی اور اتحاد کو متاثر کرنا تھا۔
نیتن یاہو کے واضح بیان کے مطابق، گذشتہ دو سالوں میں امریکہ اور صہیونی ریاست نے غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف جن جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور انسانی اصولوں کو جس انداز سے پاؤں تلے روندا ہے، اس کا مقصد "گریٹر اسرائیل کے منصوبے" کو عملی شکل دینا تھا چنانچہ انہوں نے اپنی پوری توجہ مقاومتی تحرکیوں کو قابو میں لانا اور اپنے بزعم، انہیں تباہ کرنا تھا۔ دوسرے لفظوں میں، گذشتہ دو سالوں میں امریکہ اور صہیونی ریاست نے علاقے میں فلسطینیوں سے 'معرکۂ طوفان الاقصی' کا انتقام لینے کے بہانے کے تحت جن جرائم و مظالم کا ارتکاب کیا ہے، ان کا ہدف علاقے میں محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کی تحریک کا مقابلہ اور اسے روکنا تھا، جو کہ گذشتہ سالوں میں خطے کے ممالک میں پھیل چکی تھی اور اسے مضبوط کیا جا چکا تھا۔ لیکن نہ صرف ٹرمپ اور نیتن یاہو اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوئے، بلکہ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ، جسے 'امن منصوبہ' کہا جاتا ہے، فلسطینیوں کے فائدے سے زیادہ نیتن یاہو اور صہیونی ریاست کو بچانے کے لئے ہے۔
کیونکہ وہ اس دو سالہ جنگ میں اپنے چار اہداف میں سے کوئی بھی حاصل نہیں کرسکا، جنگ کے ذریعے قیدیوں کی رہائی، حماس کی تباہی، مقاومت کو غیر مسلح کرنا اور غزہ سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو بنیادی چیلنجز کا سامنا رہا اور آج صہیونی ریاست مکمل شکست و ریخت کے خطرے سے دورچار ہے، چنانچہ ماہرین نے ٹرمپ کے اس اقدام کو، اسرائیل کے شکست و ریخت سے بچاؤ اور امریکی کی مزید رسوائی کا راستہ روکنے کی کوشش قرار دیا؛ جس کے مصادیق اور مثالیں یہ ہیں:
1۔ غزہ میں جرائم اور نسل کشی کی وجہ سے نیتن یاہو اور اس کی حکومت کو دنیا کی سب سے نفرت انگیز حکومت میں تبدیل کردیا؛
2۔ اپنے اپنے ممالک میں عوامی مخالفت کی وجہ سے، صہیونی ریاست کے سابق اتحادیوں اور حامیوں کی حمایت کا فقدان؛
3۔ دنیا کی بیشتر حکومتوں کی طرف سے فلسطینی ریاست کا تسلیم کیا جانا اور بعض ممالک سے صہیونی سفارت کاروں کی بے دخلی؛
4۔ امریکہ اور مغربی ممالک بالخصوص ان ممالک کی نوجوان نسل میں صہیونی سوچ کے دفاع میں شدید کمی؛
5۔ مقبوضہ علاقوں سے آبادکاروں کی الٹی نقل مکانی میں شدت اور اسرائیل میں داخل ہونے والے سیاحوں کی آمدی میں شدید کمی؛
6۔ جنگ کے ناقابل برداشت اخراجات اور دنیا کے دیگر ممالک میں صہیونیوں کی تیار کردہ اشیاء کے بائیکاٹ کی وجہ سے غاصب ریاست کو درپیش معاشی بحران؛
7۔ صہیونی فوج میں فوجیوں کے فرار کے بے شمار واقعات اور جنگ میں شرکت سے ان کی نافرمانی کا بحران؛
8۔ علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے پیچھے کا رہ جانا، خاص طور پر قطر پر غاصب ریاست کے حملے کے بعد؛
9۔ مسئلۂ فلسطین پر، عالم اسلام کے مسئلے کے طور پر ارتکاز، اور اسے ایک انسانی اور عالمی مسئلے میں تبدیل کرکے، اسلامی دنیا میں ہم آہنگی کا مضبوط ہوجانا؛
10۔ اسرائیلی ریاست اور امریکہ کے تئیں عرب ممالک کی بڑھتی ہوئی تشویش اور عدم اعتماد؛'
11۔ دوسری طرف فلسطین کی مقبولیت اور ان کے حق حکمرانی کا دفاع عالمی سطح پر پھیل گیا؛ اس دو سالہ جنگ نے حماس اور فلسطینی مقاومت کو آزمودہ اور تجربہ کار کر دیا ہے اور صہیونی ریاست کے خلاف غزہ کے مظلوم مگر بہادر عوام کی ایمانی اور افسانوی مزاحمت نے پوری دنیا میں اسلام کی طرف رجحان میں اضافہ کیا ہے۔
حماس نے مذاکرات کے عمل میں دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاہدے کے کچھ پہلوؤں کو اپنے فائدے میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ نیز میدانی سطح پر، صہیونی فوج کے غزہ کے کچھ حصوں سے نکلتے ہی حماس کے فوجی وہاں تعینات ہو گئے ہیں اور حماس نے آزاد ہونے والے علاقوں میں اپنے حامی افراد کو گورنر مقرر کیا ہے۔ حماس نے ثابت کیا ہے کہ اس کی فوجی طاقت کو غزہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی سیاسی سائنس دان اور نظریہ ساز "جان میئرشیمر" اس سلسلے میں کہتے ہیں: "جب اسرائیل کی فوجی کامیابیوں کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ حماس اور حزب اللہ دونوں گروہوں کے "سر قلم" کر دیئے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کے سر قلم ہو گئے ہوں، لیکن ان کے نئے سر اگ آئے ہیں۔ حماس اور حزب اللہ کے نئے رہنما ہیں، ان کے پاس بہت سے مجنگجو موجود ہیں۔ اس لئے میرے خیال میں حماس اور حزب اللہ کی شکست کا خیال درست نہیں ہے۔"
دوسرے میدان میں، ٹرمپ اور نیتن یاہو کی ایران اور خطے میں مقاومتی قوتوں کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی حکمت عملی کے باوجود، حزب اللہ اور حماس جیسی اہم مقاومتی قوتیں اپنی تشکیل نو کر چکی ہیں۔ انصار اللہ نے امریکہ اور غاصب ریاست کے لئے زمین اور سمندر پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا ہے اور عراقی مقاومت اس ملک کی سب سے زیادہ اثر انگیز قوت بن گئی ہے اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی ٹرمپ کی حکمت عملی کو لبنانی حکومت کے اندر بھی بنیادی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ سازش ناکام ہو چکی ہے۔
ایران کے معاملے میں بھی، اگرچہ ٹرمپ نے اپنے بیان میں، ـ چاہے مقبوضہ علاقوں کے دورے پر ہو، چاہے شرم الشیخ کے اجلاس میں، ـ ایران کے خلاف بے بنیاد اور شرمناک دعوے کرکے اور شہید سلیمانی کے قتل میں امریکہ کے وحشیانہ جرم اور 12 روزہ جنگ میں ایران پر حملوں جیسے بہیمانہ اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے، ایران کو خطے کے ممالک کے لئے ایک خطرے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے؛ لیکن یہی بیانات اور مذاکرات کی التجا، درحقیقت ایران کی طاقت اور اثر و رسوخ اور تسدیدی صلاحیت (ڈیٹرنس) کو قابو کرنے میں امریکی حکمت عملیوں کی ناکامی کا اعتراف، ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ 12 روزہ جنگ میں امریکہ اور صہیونی ریاست کے سامنے ایران کی ڈٹ جانے اور ان دونوں حکومتوں پر کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ جنگ کے بعد کے دور میں تیاری برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے نے عالمی سطح پر اسلامی نظام کی پوزیشن کو مستحکم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ٹرائیکا کے رہنما، امریکہ کے حکم اور دباؤ پر، "اسنیپ بیک" (Snapback) کے ذریعے ملک کے اقتصادی اور سماجی سکون اور استحکام کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایران کے عوام میں اتحاد اور یکجہتی کی ناکامی کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنے خیال میں وہ ایران کے عوام کے ہتھیار ڈالنے کی راہ ہموار کر سکیں۔ لیکن یہ آرزو بھی قبر میں لے کر جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: عباس حاجی نجاری
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ