28 ستمبر 2025 - 11:26
کیا 'ٹریگر میکانزم' آخری جنگ کا آغاز ہے؟!

ایران نے پرامن رہنے کے لئے ہر راستہ اختیار کیا؛ ہر بہانہ روک دیا؛ برداشت کیا اور قیمت چکائی؛ اتنا صبر کیا کہ امریکہ اور یورپ کے پاس اب کوئی منطقی دلیل باقی نہیں رہی سوائے اس کے کہ وہ اپنے جبر و زبردستی کا کھلم کھلا اظہار کر دیں!

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اسلامی جمہوریہ ایران کبھی بھی جنگ سے خوفزدہ نہیں ہؤا، لیکن تصادم سے بچنے کی کوشش کی؛ جبکہ دشمن نے ایک بھی مثبت قدم نہیں اٹھایا اور صرف یہ چاہا کہ ایران ہتھیار ڈال دے!! اور یوں ایران کی قوم کی عزت و غیرت کو للکارا کیونکہ کوئی بھی غیرت مند ایرانی ہتھیار نہیں ڈالا کرتا!

یہاں تک کہ جوہری پروگرام پر اختلاف بھی محض بہانہ تھا؛ وہ ایران کے عزم سے ڈرتے ہیں؛ ایران کی طاقت سے؛ ایران کے میزائلوں سے۔ ایران خطے کے ٹوٹ پھوٹ کی راہ میں واحد اہم رکاوٹ ہے؛ اور صہیو-امریکی محاذ خطے کو ٹکڑے ٹکڑے اور نہتا اور زد پذیر دیکھنا چاہتا ہے تاکہ جب چاہیں آئیں، حملہ کریں اور چلے جائیں، صحیح سالم اور بغیر کسی سزا کے!

وہ چاہتے ہیں کہ ایران کے میزائلوں کی رینج 500 کلومیٹر سے کم ہو! ایران کا کوئی فضائی دفاع نہ ہو! یہ وہ خواب ہے جسے وہ اپنے ساتھ قبر میں لے جائیں گے۔

کیا 'ٹریگر میکانزم' آخری جنگ کا آغاز ہے؟!

صہیونیت، اسرائیل کو زوال پذیر دیکھ رہی ہے؛ ٹرمپ کو ایک مثالی موقع سمجھتی ہے۔ وہ اس حقیقت سے ڈرنے میں حق بجانب ہیں کہ ٹرمپ کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ ایران اور مزاحمت پر مزید دباؤ نہیں ڈال سکیں گے۔

دوسری طرف وہ ایران کے خلاف 90 فیصد سے زیادہ راستے طے کر چکے ہیں جن کے ذریعے وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو پریشان کر سکتے تھے؛ نہ ہی وہ معیشت پر مزید دباؤ ڈال سکتے ہیں، نہ ہی فوجی میدان میں ان کے پاس کوئی بڑی کامیابی کا امکان ہے۔ ساتھ ہی وہ پوری دنیا میں قابلِ نفرت ہو چکے ہیں؛ اقوام متحدہ کے ہال میں نیتن یاہو پر کسے جانے والے آوازے،  اور عمارت کے باہر ہزاروں مخالفین کے احتجاجی مظاہرے تمام تر حقائق کی گواہی دے رہے ہیں۔

چین، روس اور بہت سے دیگر ممالک آج پہلے سے کہیں زیادہ کھلم کھلا ان کے خلاف موقف اختیار کر رہے ہیں، اور بہت سے ممالک نے غزہ میں نسل کشی سے نفرت کی وجہ سے آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ نیتن یاہو آج ایک ایسے راستے پر ہے جس سے واپسی ممکن نہیں ہے، اور سب جانتے ہیں کہ اس نے ذلت و خفت و شکست کو خود دعوت دی ہے۔

وہ اسرائیل کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ امریکہ کو ایران کے ساتھ براہ راست اور طویل جنگ میں گھسیٹ کر وہ اسرائیل کے زوال کو روک سکتا ہے، اس کے سقوط اور شکست و ریخت کو بے اثر یا ملتوی کر سکتا ہے! اور اگر کامیاب ہؤا تو "عظیم تر اسرائیل" تک پہنچ سکتا ہے!! جو تلمودی یہودیت میں ایک عقیدتی اساس رکھتا ہے۔

دوسری طرف امریکہ ایران کے ساتھ وسیع پیمانے پر جنگ کا خواہش مند نہیں ہے۔ کم از کم 12 روزہ جنگ میں اس نے نیتن یاہو کی اس خواہش کو مسترد کیا۔ ٹرمپ معاشی دباؤ اور ہتھیاروں کی پابندیوں پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔

لیکن صہیونیت کی لابی امریکہ میں بہت طاقتور ہے۔ وہ امریکی فیصلوں پر کتنا اثر انداز ہو سکتے ہیں، یہ واشنگٹن کے حساب کتاب اور وسیع پیمانے کے تصادم کے نقصان اور فائدے کے تخمینوں پر منحصر ہے۔ یہ کم از کم کاغذ کی حد تک آسان کام نہیں ہے۔ ایران کے ساتھ جنگ دنیا کو بدل دے گی۔ وہ بے مثال نقصانات اٹھائیں گے۔ یہ جنگ چین جیسی طاقتوں کے ساتھ مقابلے میں انہیں برسوں پیچھے ڈال دے گی اور ایک نئی عالمی ترتیب اور چند قطبی دنیا کو عملی طور پر تشکیل دے گی!

لیکن کے پاس ایران اپنی عزت، غیرت، تہذیب اور تاریخ کے تحفظ اور مزاحمت و مقاومت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے؛ اور اس کے پاس فتح و کامیابی کے سوا دوسرا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اس دور میں جینے والے لوگ تاریخ کی تعمیر کرنے والے ہیں۔ یہ ایسا دور ہے جس میں سینکڑوں سال بعد ایک بار پھر ایک طاقتور ایران دنیا کے آنکھوں کے سامنے ہے۔ باوجود اس کے کہ 'ٹریگر میکانزم' بھی فعال ہو چکا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اس موقع پر بھی اس مسئلے کے منفی نتائج کم کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا، لیکن یقینی امر ہے کہ وہ قومی حقوق و مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور ہر ممکنہ صورتحال کے لئے تیار رہے گا۔ یہ تصادم ناگزیر تھا اور مذاکرات کے ذریعے وقت خریدنے کی حکمت عملی محض ایک چال تھی! ایران طاقتور ہے اور بلاشبہ مزید طاقتور ہوگا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: عبدالرحیم انصاری

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha