بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) ایک ممتاز علاقائی تنظیم کے طور پر یوریشیا میں سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی تعاون کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ستمبر 2025 میں تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا حالیہ دورہ چین اور 2023 سے اس تنظیم میں ایران کی مکمل رکنیت مشرقی طاقتوں بالخصوص چین اور روس کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے لئے ایران کے عزم کا اظہار ہے۔
ایران نے 2021 میں چین کے ساتھ 25 سالہ تعاون کا معاہدہ اور 2025 میں روس کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدہ منعقد کیا اور SCO میں شمولیت کے ساتھ ساتھ ان دونوں ممالک کے ساتھ طویل مدتی معاہدوں پر دستخط کرکے اپنے تعلقات کو مزید گہرا کر دیا۔ یہ تعاون تین شعبوں پر محیط ہے: اقتصادی، سیکورٹی اور سیاسی۔
دنیا میں توانائی کے سب سے بڑے صارف کے طور پر، چین ایران کی تیل اور گیس کی برآمدات میں کلیدی شراکت دار ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے منصوبے جیسے کہ نارتھ ساؤتھ کوریڈور اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو جیسے ذرائع ایران کو عالمی تجارت میں ایک مربوط لنک کے طور پر مضبوط کر رہے ہیں۔ روس کے سلسلے میں، توانائی، ٹرانسپورٹ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون، خاص طور پر SCO کے فریم ورک کے اندر، ایران کو اپنی مصنوعات کے لئے نئی منڈیاں تلاش کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔
عسکری اور سلامتی کے شعبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کی مشترکہ فوجی مشقیں، جیسے ایران، چین اور روس کی بحری مشقیں، بڑھتے ہوئے فوجی ہم آہنگی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ معلومات کا تبادلہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ـ بالخصوص ایران کی مشرقی سرحدوں پر ـ میں تعاون، اس تعاون کے دیگر فوائد ہیں۔
سیاسی معاملات کے بارے میں چین اور روس، ـ جو خود مغربی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں، ـ بین الاقوامی دباؤ کے خلاف ایران کی حمایت کرتے ہیں، اور ان کی مارکیٹیں ایران کو پابندیوں سے بچنے کا ایک آسان موقع فراہم کرتی ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت مغربی پابندیوں کے اثرات کو بہت حد تک کم کر دیتی ہے۔
دریں اثنا، اس مسئلے کا سب سے اہم مبصر، جو ایران، چین اور روس کے تعلقات کو خاص حساسیت کے ساتھ دیکھتا ہے، صہیونی ریاست ہے۔ حالیہ دنوں میں عبرانی زبان کے ذرائع ابلاغ اور صہیونی تجزیہ کار ایرانی صدر کے دورہ بیجنگ اور دیگر غیر ملکی وفود کے ساتھ ڈاکٹر پزشکیان کی سربراہی میں ایرانی وفد کی سفارتی ملاقاتوں پر باریک بینی اور احتیاط سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔
صہیونی اخبار ہاآرتص: "روس اور چین، ایران کے ساتھ ہیں: وہ تہران کے خلاف پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کی مخالفت کرتے ہیں اور امریکہ کو JCPOA معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔"
شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک کے اندر چین اور روس کے ساتھ ایران کے تعلقات کی مضبوطی نے صہیونی ریاست کے رہنماؤں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس حساسیت کی وجوہات میں ایران کو تنہا کرنے کی صہیونی-مغربی کوششوں کو کمزور کرنے، شنگھائی تعاون تنظیم کا اسرائیل مخالف موقف، ایران کی فوجی طاقت کو مضبوط کرنے اور علاقائی ترتیب کو تبدیل کرنے جیسے مسائل شامل ہیں۔
ایران کو تنہا کرنے کی صہیونی-مغربی کوششوں کی ناکامی!
شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت اور چین اور روس کی طرف سے اس ملک کی حمایت نے ایران کو تنہا کرنے کی اسرائیلی-امریکی کوششوں کو چیلنج کر دیا ہے۔ مغربی ایشیا میں جغرافیائی سیاسی مسابقت کے پیش نظر اسرائیل کے لئے یہ مسئلہ خاص طور پر تشویشناک ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا اسرائیل مخالف موقف:
شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ بیانات، بشمول غزہ پر اسرائیل کے حملوں اور 2025 میں ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی مذمت، صہیونی ریاست کے خلاف تنظیم کے تنقیدی انداز کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس موقف نے بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں ایران کو اسرائیل کے مقابلے میں ایک مضبوط پوزیشن پر پہنچا دیا ہے۔
ایران کی فوجی صلاحیت کی تقویت:
ایران کا چین اور روس کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے میدان میں تعاون ـ بالخصوص شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک کے اندر، ـ ایران کی فوجی صلاحیت میں اضافہ کر دیتا ہے ہے جو صہیونی ریاست کے لئے ایک تزویراتی خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں ایران، چین اور روس کے درمیان ہتھیاروں اور فوجی میدان میں اہم مشترکہ سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہؤا ہے۔
علاقائی ترتیب میں تبدیلی:
شنگھائی تعاون تنظیم کثیر قطبی نظام کے پلیٹ فارم کے طور پر، امریکی تسلط کو چیلنج کرتا ہے جس پر صہیونی ریاست کا مکمل انحصار ہے۔ عبرانی بولنے والے تجزیہ کار شنگھائی تعاون تنظیم کو ممکنہ "مشرقی نیٹو" کے طور پر دیکھتے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بدل سکتی ہے۔
نئے حقائق کو تسلیم کرنا ہی عقلمندی ہے!!
صہیونی انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز نے ایران، چین اور روس کے مسئلے اور روس اور چین کے ساتھ ایران کے تعلقات کو مزید گہرا ہونے سے روکنے کے لئے اپنی ریاست کی کوششوں کے بارے میں لکھا ہے:
"اسرائیل کا بنیادی مقصد ایران کی فوجی صلاحیتوں کی تعمیر نو ـ خاص طور پر جوہری، بیلسٹک میزائل، فضائیہ اور فضائی دفاع کے شعبوں ـ میں روس اور چین کی مدد سے لاحق خطرات کو کم کرنا ہے، جبکہ ایران پر روسی اور چینی اثر و رسوخ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر ایران کو سیاسی معاہدے اور جوہری ہتھیاروں کے حصول کے ارادے کو ترک کرنے پر آمادہ کروانا ہے!۔
تاہم اسرائیل کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ حالات میں ایران اور ماسکو اور بیجنگ میں اس کے شراکت داروں کے درمیان، دراڑ پیدا کرنا ممکن نہیں ہے۔ بہترین راستہ یہی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل ایران-روس-چین مثلث میں جاری تعاون کے خطرات ـ خاص طور پر ایران کو ہتھیاروں کی سپلائی کے امکانات ـ کا خطرہ کم کرنے کے لئے (امریکی تعاون سے) چین اور روس کے ساتھ بات چیت جاری رکھے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل ایران کو جدید ہتھیاروں کی منتقلی کی کی سخت مخالفت پر زور دے سکتا ہے، اور اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے ہتھیاروں کے نظام کے خلاف کارروائی کے لئے اپنے عزم کا اظہار کرنا چاہئے۔
اسرائیلی اور مغربی ماہرین عام طور پر اس بات پر فکر مند ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت اور پزشکیان کے سفارتی اقدامات، خاص طور پر شی جن پنگ اور ولادیمیر پوتن کے ساتھ ان کی ملاقاتیں، مغربی اور اسرائیلی دباؤ کم کرنے اور ایران کے حق میں توازن پیدا کرنے کی کوششوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہ مسئلہ اسرائیل کے لئے خاص طور پر ایک حساس مسئلہ ہے کیونکہ یورپ ٹریگر میکانزم کو متحرک کرچکا ہے اور ایران کے جوہری تناؤ میں اضافہ ہؤا ہے۔"
خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار اسٹیون کوک نے ایک مضمون میں ڈاکٹر پزشکیان کے چین کے دورے کے حوالے سے مغرب اور اسرائیل کے خدشات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کوک نے زور دے یر کہا کہ چین کو ایرانی تیل پر انحصار کی وجہ سے ایران کی ضرورت ہے (2024 میں چین کی خام تیل کی درآمدات کا تقریباً 13 فیصد ایران نے فراہم کیا) اور تہران-بیجنگ تعلقات کو مضبوط بنانا، خاص طور پر فوجی اور دفاعی شعبوں میں، مشرق وسطیٰ میں چین کی غیر جانبدارانہ پالیسی میں اہم تبدیلی لا سکتا ہے۔ یہ اسرائیل کے لئے تشویشناک ہے، کیونکہ اس کا مطلب مغربی ایشیا میں سیکیورٹی گیم میں چین کا داخلہ اور ایران کی حمایت، ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر سیاسی اقدامات اور بیجنگ اور ماسکو کو ایران کے ساتھ تعاون ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششوں کے علاوہ، جو کہ اب تک ناکام رہی ہیں، صہیونی ریاست نے حالیہ برسوں میں ایران میں ملکی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے ایک وسیع میڈیا پروجیکٹ پر عمل کیا ہے، تاکہ ایرانی حکومت اور حکام کو اندرونی دباؤ میں ڈالا جا سکے اور تہران کے ماسکو اور بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ اس منصوبے کی قیادت فی الحال ایران انٹرنیشنل نامی پراکسی چینل اور اس میں مصروف عمل صہیونیوں کے کرائے کے گماشتے کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ