بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || آج کل دنیا شرم الشیخ اجلاس میں ایک حیرت انگیزی کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ اسرائیلی بچہ کش فوج کے خلاف حماس کے چند مجاہدوں کی دو سال اور دو دن کی مزاحمت اب ایک ایسے اجلاس پر منتج ہوئی ہے کہ جس میں ایک طرف امریکہ اور کئی مغربی اور علاقائی ممالک کے رہنما بیٹھے ہیں اور دوسری طرف حماس اور غزہ کے ثابت قدم عوام۔
علاقائی رہنماؤں کے ساتھ شرم الشیخ اجلاس میں ٹرمپ کے توہین آمیز رویوں نے، اس جنگ بندی کے مقابلے میں ـ جسے حماس اور غزہ کے عوام نے ـ ان (ٹرمپ) اور نیتن یاہو پر مسلط کیا ہے ـ اس اجلاس کو تاریخی عبرتوں کا آمیزہ بنا دیا ہے۔
ایک طرف تو حماس اپنی مقاومت و مزاحمت کا صلہ پا رہی ہے اور دوسری طرف، علاقائی ممالک کے رہنما ایک ایک کرکے ٹرمپ کے توہین آمیز الفاظ کی تلوار سے ـ ان کے سامنے جھکنے کے جرم میں ـ ذبح ہو رہے ہیں۔
"شرم الشیخ اجلاس" یا شرکاء رہنماؤں کی تذلیل کا اجتماع؟
اب کسی کو شک نہیں کہ ٹرمپ نے شرم الشیخ سربراہی اجلاس کو ایک عظیم تماشے میں بدل دیا تاکہ شریک ممالک کے سربراہان بالخصوص عرب ممالک اور بعض مغربی ممالک کے سربراہان کی تذلیل کی جا سکے۔ اسٹارمر سے لے کر اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی تک ویڈیو دیکھئے:
اس کے برعکس، خودغرض اور نرگسیت پسند (اور اپنی ذات کے شیدائی Narcissist) امریکی صدر توجہات کا مرکز ٹہرے، اور گروپ فوٹو کے بجائے، ـ جو کہ اس طرح کے اجلاسوں کا معمول ہے، ـ انھوں نے دوسروں کو ایک ایک کرکے اپنے ساتھ فوٹو لینے کا اعزاز بخشا!!
اس اجلاس کے واقعات نے ایران کی شرکت نہ کرنے کے اعلان پر اٹھنے والے سوالات کا معروضی جواب فراہم کیا۔ ایران کے باہر سے بھی اور اندر کے کچھ سیاسی دھاروں کی جانب سے شرم الشیخ کے دورے کو صدر یا وزیر خارجہ پر مسلط کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن اس سربراہی اجلاس میں جو مناظر رونما ہوئے اس سے ظاہر ہؤا کہ ایران کا فیصلہ بالکل بجا تھا کیونکہ اس سربراہی اجلاس میں شرکت سے ایران کی غیرت پر مبنی سفارت کاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا جس کا بروقت سد باب کیا گیا۔
صدر کے دفتر کے پروٹوکول کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف سید عباس موسوی نے ایکس نیٹ ورک پر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کا ایک حصہ شائع کیا اور لکھا: "تو کیا ہم شرم الشیخ جانا چاہئے تھا اس لئے کہ یہ باتیں براہ راست سنتے، ذلیل ہوتے، شرمندہ ہوتے اور کسی قسم کا فائدہ حاصل کئے بغیر واپس آجا تے؟!"
موسوی کا اشارہ ٹرمپ کے بیانات کے اس حصے کی طرف تھا جہاں وہ اسکول کے منتظم کی طرح خطا کار طلباء (یعنی اجلاس میں حاضر رہنماؤں) کے سامنے کھڑے ہو کر کہہ رہے تھے: "آپ میرے دوست ہیں۔ آپ بہت بڑے لوگ ہیں۔ البتہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں میں پسند نہیں کرتا لیکن میں نہیں بتاؤں گا کہ وہ کون ہیں۔ درحقیقت میں چند لوگوں کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ لیکن تمہیں کبھی پتہ نہیں چلے گا کہ وہ کون ہیں۔ اب میں سوچ رہا ہوں، شاید بالآخر تمہیں پتہ چل ہی جائے!"
ٹرمپ یہ باتیں اس وقت کہہ رہے تھے جب مختلف ممالک کے رہنما قطار میں کھڑے ہو کر ان کی باتیں سن رہے تھے!!
اسی سلسلے میں، مشرق وسطی کے معاملات کے تجزیہ کار 'علم صالح' نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "یہ اجلاس خطے کے بحرانوں پر بات کرنے کے بجائے، نیتن یاہو اور ٹرمپ کی مدیحہ سرائی اور عرب رہنماؤں کی کھلی بے عزتی کا [شرمناک] منظر تھا۔"
ایک ہاتھ جو ہوا میں ٹہر کر رہ گیا اور ایک مسکراہٹ جو مرجھا گئی
شرم الشیخ میں جو کچھ ہوا اس میں ایک عظیم الشان تماشے کی علامت تھا جس کا میزبان اگرچہ مصر تھا لیکن اس کے ہدایت کار ٹرمپ تھے!
جب السیسی نے ٹرمپ سے مصافحہ کیا تو ان کے امریکی ہم منصب اسی وقت لاتعلقی سے، اپنی جگہ پر بیٹھ گئے؛ جب تک السیسی کی مسکراہٹ ان کے چہرے پر خشک ہو گئی۔ میزبان ملک کے صدر کے ساتھ ٹرمپ کے رویے نے اس اجلاس میں دیگر عرب اور علاقائی ممالک کا انجام بالکل واضح کر دیا تھا!
امریکی صدر نے اپنی تقریر میں شرم الشیخ سربراہی اجلاس میں موجود تقریباً کسی بھی عرب ملک کو بے عزت کئے بغیر نہیں چھوڑا۔ انھوں نے السیسی سے مصافحہ نہیں کیا، متحدہ عرب امارات کے نمائندے کو "نہ ختم ہونے والے پیسوں کا مجموعہ" قرار دیا اور عراق کو ایک ایسا ملک قرار دیا جس کے پاس "اتنا تیل ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے!"
انھوں نے اپنی طنز اور توہین کی تیز دھارمغربی ممالک کے رہنماؤں کی طرف بھی موڑ دی۔ برطانوی وزیر اعظم سٹارمر کے ساتھ توہین آمیز سلوک کے بعد، کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی (Mark Carney) کی باری آئی اور ٹرمپ نے ان کا بھی براہ راست مذاق اڑایا؛ جب جب ٹرمپ نے کارنی صدر کہہ کر مخاطب کیا اور کارنی نے کہا "میں خوش ہوں کہ آپ نے مجھے صدر بنا دیا"، تو ٹرمپ نے جواباً کہا: "اوہ، میں نے کہا...؟ [اچھا ہے] کم از کم میں نے گورنر تو نہیں کہا!" یعنی انھوں نے در حقیقت اپنے اس منصوبے کی طرف اشارہ کیا کہ جس کے تحت وہ کینیڈا کو امریکہ کی ایک ریاست بنانا چاہتے ہیں، اور اس صورت میں کینیڈا کا حکمران ایک ریاست کا گورنر ہوگا!
حماس غزہ سے؛ اور قطار لگائے حکمران!
اگرچہ ٹرمپ نے شرم الشیخ کے واقعات کی ہدایت کاری کی کوشش کی؛ لیکن ان کی کوششوں اور اس کے ڈرامے میں شامل ضمنی اداکاروں کے باوجود، اس بڑے شو کے پیچھے چمکنے والی سچائی کی روشنی کو چھپایا نہیں جا سکتا۔
شرم الشیخ کا اجلاس ایک ایسے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لئے بلایا گیا تھا جس پر پہلے ہی صہیونی ریاست اور حماس تحریک نے دستخط کر دیئے تھے۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو، ـ جن کا ابتدائی مقصد حماس کو تباہ کرنا اور غزہ کی آبادی کو منتشر کرنا تھا، ـ آخرکار حماس کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوئے اور اپنے ابتدائی مطالبات سے دستبردار ہو کر حماس کی بعض شرائط مان لیں۔
شرم الشیخ میں، جب کہ 35 سربراہان مملکت اور مختلف ممالک کے نمائندے ٹرمپ کے ساتھ یادگاری تصویر کھنچوانے کے لئے قطار میں کھڑے تھے، حماس کے نمائندوں نے اگرچہ شرکت نہیں کی تھی، لیکن خطے کے رہنماؤں کے مقابلے میں، ٹرمپ کی طرف سے انہیں زیادہ احترام ملا۔
امریکی صدر، حماس کو غیرمسلح کرنے کے بارے میں شیخیاں بگھارنے کے باوجود، تقریر کے دوران حماس کی طاقت تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے اور اس مقاومتی تحریک کے رہنماؤں کو "سخت مزاج، ہوشیار اور اچھے مذاکرات کار" جیسے الفاظ سے یاد کیا۔
دوسری طرف سے، انھوں نے شرم الشیخ سربراہی اجلاس میں شریک سربراہان مملکت و حکومت اور شریک ممالک کے نمائندوں کی موجودگی کو ان کی تذلیل کے لئے کا وسیلہ بنایا، تاکہ سفارتی آداب پہلے سے زیادہ حیرت زدگی کا شکار ہوں۔
ایکس کے ایک میڈیا کارکن شہاب اسفندیاری کے الفاظ میں: "شرم الشیخ میں جو کچھ ہؤا وہ حیران کن ہے۔ 35 سربراہان مملکت ٹرمپ کے ساتھ مصافحہ کرنے اور فوٹو لینے کے لئے قطار میں کھڑے ہیں؛ وہی صدر جس نے صرف دو گھنٹے قبل فخر سے کہا تھا کہ اسی نے اس نسل کشی کے لئے ہتھیار فراہم کئے ہیں اور انھوں نے نیتن یاہو ـ اس جنگی مجرم ـ کو عظیم رہنما قرار دیا ہے!"
حماس سے لے کر اسلامی جہاد تک کی فلسطینی مقاومتی تحریکوں ـ اور یقیناً غزہ کی پٹی کے عوام کی استقامت اور ثابت قدمی ـ کی حقیقت سبب بنی کہ کوئی طاقت مزاحمت اور استقامت کے اس مہاکاوی میں موجود اقدار کی براہ راست ہدایت کاری یا ان میں ہیرا پھیری کرنے سے عاجز رہے۔
بالآخر شرم الشیخ کے عجائبات تاریخی اسباق بن گئے جن سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: علی رضا محمدی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ