14 اکتوبر 2025 - 23:17
شرم الشیخ سربراہی اجلاس؛ ایران کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا، عطوان

عطوان کا کہا تھا: "شرم الشیخ سربراہی اجلاس میں امریکی صدر نے امن پسندانہ امیج پیش کرنے کی کوشش کی؛ حالانکہ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ وہ اور امریکی حکومت غزہ میں صہیونی جرائم کے اصل حامی ہیں۔/ ایران کی شرم الشیخ میں عدم شرکت حکیمانہ تھی / ٹرمپ کو ایران کا جواب مضبوط اور عزتمندانہ تھا۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || "امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خطے کے حالیہ مختصر دورے پر آئے تو 'عرب اور اسلامی ممالک نے ان کا پرتپاک استقبال کیا مگر اسلامی جمہوریہ ایران نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی اور اس نے انتہائی قابل قدر مقام حاصل کیا۔" یہ شرم الشیخ سربراہی اجلاس میں ایران کی عدم شرکت سے متعلق، عرب دنیا کے ممتاز تجزیہ نگار عبدالباری عطوان کے الفاظ تھے، جنہوں نے الیکٹرونک اخبار رأیُ الیوم میں ایک رپورٹ کے ضم نیمں لکھا کہ امریکی صدر کی اسرائیلی پارلیمان میں تقریر کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کی درخواست کو مسترد کرنا ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ ایران نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی جانب سے شرم الشیخ سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اجلاس کی صدارت ٹرمپ نے کی۔

عطوان نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے ٹرمپ کی درخواست کے بارے میں ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ ایران کا سخت اور باوقار جواب امریکی صدر کو ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے دیا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں کہا: ہم ان لوگوں کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتے جنہوں نے ایرانی قوم پر حملہ کیا اور ہم پر پابندیاں عائد کر دیں۔

شرم الشیخ سربراہی اجلاس پر اتوان؛ ایران کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا

عراقچی کا موقف انقلاب اسلامی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے موقف سے ہم آہنگ تھا۔ اس سلسلے میں آیت اللہ خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے فرمایا: "مذاکرات اور تعلقات میں کشیدگی کے خاتمے کے لئے امریکہ کی شرائط بہت گھناؤنی ہیں، جن میں سب سے اہم یورینیم کی افزودگی کا مکمل خاتمہ اور 450 کلوگرام افزودہ یورینیم کی تحویل شامل ہے۔" تہران کا واشنگٹن کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران امریکہ کا آلہ کار بن جائے اور وہ اس معاملے کو یکسر مسترد کرتا رہا ہے۔

شرم الشیخ میں ایران کی غیر موجودگی دانشمندانہ تھی

ایران کی طرف سے مصری صدر کی درخواست کو ماننے سے انکار کے بارے میں یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ یہ موقف بھی بہت دانشمندانہ تھا۔ درحقیقت، اس انکار کا نشانہ مصر نہیں تھا بلکہ ایران اس امریکی صدر کے ساتھ یادگاری تصویر بنانا نہیں چاہتا تھا جس نے ایران کے خلاف دو بڑے جرائم کا ارتکاب کیا ہے: پہلا جرم گذشتہ جولائی میں کیا گیا جب اس نے اسرائیل کی حمایت میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گوکہ اس کے نتائج برعکس تھے۔ اگلا جرم 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبرداری سے عبارت تھا، جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کہا جاتا ہے، جس میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس اقدام پر ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔ لیکن JCPOA سے ٹرمپ کی ستبرداری ایران اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے لئے سب سے بڑا تحفہ تھی۔

عطوان مزید لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قائدین کا موقف بہت دانشمندانہ رہا ہے؛ کیونکہ ایران امریکہ نامی دشمن سے مذاکرات کیسے کر سکتا ہے جس نے اس ملک پر بمباری کی اور اس جرم کے شہیدوں کا خون ابھی تک خشک نہیں ہؤا؟ شرم الشیخ اجلاس میں ایرانی وزیر خارجہ کیسے شرکت کر سکتے تھے جبکہ اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے عرب ممالک نے اس غیر مستحکم جنگ بندی معاہدے کا جشن منایا، جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ زیادہ دیر نہیں چلے گا اور اس کا واحد مقصد تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرانا تھا تاکہ ٹرمپ شاید اگلے سال امن کا نوبل انعام جیت سکیں!

ایرانی میزائل حملوں کے اثرات / صیہونی ایران کے سامنے جنگ میں، جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑی

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر نے ابھی تک فلسطین میں کسی حکومتی حل کا ذکر نہیں کیا، غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کا کوئی حوالہ نہیں دیا اور "گریٹر اسرائیل" کی تشکیل کے لئے اسرائیل کی حمایت سے ایک لمحے کے لئے بھی دریغ نہیں کیا؛ بلکہ انھوں نے اسرائیل کو بڑا بنانے اور مشرقی یروشلم پر قبضے کی حمایت اور امریکی سفارت خانے کو اس علاقے میں منتقل کرکے خود ہی عرب اور اسلامی دنیا کے خلاف اس سازش کی بنیاد رکھی ہے۔

عطوان کے مطابق، ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ نے صہیونیوں کو جنگ بندی کا مطالبہ کرنے پر پر مجبور کیا، کیونکہ ایران کے جدید میزائلوں نے جنوبی تل ابیب کا نصف حصہ تباہ کر دیا، وائزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ریسرچ کو تباہ کر دیا، اور سینکڑوں صہیونیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس جنگ اور اس کی پیشرفت نے ٹرمپ کو ایک بار پھر ایران سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی ترغیب دلائی تاکہ وہ اسرائیل کو بچا سکیں اور اس کی زندگی کو طول دے سکیں، خطے میں امریکی اڈوں برقرار رکھ سکیں اور تباہ ہوتی ہوئی امریکی معیشت کو بچانے کے لئے عربوں سے کھربوں ڈالر نکال سکیں۔

انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ جنگ آنے والی ہے لیکن یہ گذشتہ جنگوں کی طرح یک طرفہ نہیں ہوگی کیونکہ فلسطینی مزاحمت باقی ہے اور پھیل رہی ہے، یمنی انصار اللہ فورسز اب بھی موجود ہیں، حزب اللہ ضرور مداخلت کرے گی، اور ایرانی میزائلوں اور آبدوزوں کی ترقی ناقابل انکار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: محمد رضا احمدی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha