6 مئی 2025 - 13:45
مآخذ: ڈان نیوز
پاک - بھارت کشیدگی: ’ماسٹر مائنڈ سے پہلے مجرمان کو تلاش کریں‘

بھارتی ٹی وی چینلز پر نفرت کا پرچار کیا جاتا ہے اور ایسا دشمن بنایا جاتا ہے جس کے چار ٹکڑے کیے جاسکتے ہیں۔ جب مذہب اور قوم پرستی انتہا کو پہنچ جائے تو لوگوں کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوتا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | 
سپریم کورٹ کے سابق جج اور امن پسند شخصیت رکھنے والے مارکنڈے کاٹجو نے جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایے کے خلاف جنگ کا ڈھول پیٹنے سے قبل پہلگام سانحے کی تحقیقات کے حوالے سے معقول دلیل دینے کی کوشش کی۔ جج نے کہا کہ کسی کو ماسٹر مائنڈ قرار دینے سے پہلے مجرمان کو تلاش کریں۔ لیکن زیادہ تر لوگ اب عقل اور وجوہات پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ بھارتیوں کی اکثریت مشتعل ہجوم میں تبدیل ہوچکی ہے۔
ناقابلِ بیان جرم کو مزید سنگین بنانے کے لیے چنئی سے کولمبو جانے والے سری لنکا کے طیارے میں پہلگام حملے میں ملوث مشتبہ ملزمان کو پکڑنے کے لیے سیکیورٹی تلاشی لی گئی۔ بھارت سے سری لنکا کو ملنے والی اطلاع اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ملزمان بھارتی سیکیورٹی فورسز کو چکما دے کر بھارت سے فرار ہوچکے ہیں۔
آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے سربراہ نے پہلگام میں 25 سیاحوں کے قتل سے لگنے والی چنگاری کو ہندو مذہبی افسانوں سے بھڑکانے کی کوشش کی۔ موہن بھاگوت نے رامائن کا حوالہ دیتے ہوئے سنگ دل مجرمان سے بدلہ لینے اور ان کی تباہی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو اس جنگ کی یاد دلائی جس میں بھگوان رام نے لنکا کے بادشاہ کو مات دی اور قتل کیا کیونکہ اس کی بیوی سیتا کو دنداکرنیا کے جنگلات میں جلاوطنی کے دوران دھوکا دہی سے اغوا کیا گیا تھا۔
موہن بھاگوت کے رام اور راون کی تمثیل میں کچھ مسائل ہیں۔ جدید جنگی دور کے تناظر میں بالخصوص ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان جیسے ملک کے خلاف مذہبی استعاروں کا سہارا لینا مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ چند پاکستانیوں کو لاہور میں بیٹھ کر اپنے ٹی وی سیٹس پر دور درشن پر رامائن ٹی وی سیریل دیکھنا یاد ہوگا۔ اس ٹی وی سیریل میں رام نے اپنی روحانی صلاحیت سے ایک طاقتور ہتھیار حاصل کیا تھا جسے برہمسترا کہا جاتا ہے۔ اور رام کو راون کو کمزور کرنے کے لیے برہمسترا کی ضرورت تھی لیکن اسے راون کے بھائی وبھاشن کی بھی ضرورت تھی جو راون کے خلاف ہوگیا تھا۔
آج کے رامائن میں نریندر مودی کے پیروکار انہیں کسی دیوتا کی طرح پوجتے ہیں۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس رام کا انتہائی اہم ہتھیار نہیں ہے۔ موہن بھاگوت اس حقیقت سے غافل نہیں ہیں کہ پاکستان اور بھارت دونوں غلط وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے پر جوہری ہتھیار تانے ہوئے ہیں۔
سنہ 2002ء میں میری ملاقات پرنسٹن میں پروفیسر جان نیش سے ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب ان پر مبنی فلم ’اے بیوٹیفل مائنڈ‘ (A Beautiful Mind) ریلیز ہوئی تھی۔ اس وقت وہ غصے میں تھے کیونکہ ان کی شخصیت پر مبنی فلم سے زیادہ اسپائیڈرمین فلم کے چرچے تھے۔ بھارت اور پاکستان کے اپنے جوہری ہتھیاروں کو سنبھالنے کا طریقہ ان جنگی حکمت عملیوں پر مبنی ہے جنہیں تیار کرنے میں جان نیش نے مدد کی تھی۔
ان کے مطابق کوئی بھی فریق اگر تناؤ کا توازن بگاڑنے کے لیے کسی طرح کی کوشش کرے گا تو اس کے نتیجے میں اس فریق کو خود بھی نقصان پہنچے گا۔ Mutual Assured Destruction (MAD) کے نام سے جانا جانے والا یہ نظریہ سرد جنگ کے دوران دو حریفوں پر کامیابی سے لاگو ہوا۔ یہ جوہری طاقت کا ہی خوف ہے کہ دنیا کے سب سے مہلک ہتھیاروں کے مالک ملک کو بھی ایٹم بم رکھنے والے چھوٹے ملک سے احترام سے پیش آنا چاہیے۔ سنگاپور میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شمالی کوریا کے کم جونگ اُن کے ساتھ ملاقات کا احوال کو سب ہی کو یاد ہوگا۔
آر ایس ایس میں ہر سال دسہرہ کے موقع پر ہتھیاروں کی پوجا کرنا ایک روایت ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہندو راشٹریہ کے اپنے وژن کی تعمیر کے لیے جنگ کو اہم سمجھتے ہیں۔ 2019ء میں بھارتی فوجیوں پر پلواما حملے کے بعد بھی آر ایس ایس نے جنگ کی کال دی تھی۔
اس وقت بھی مودی نے بدلہ لینے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ ان کی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کے پاس بالاکوٹ کے علاقے میں ملزمان کے مبینہ ٹھکانے پر بمباری کی ہے۔ اگلے روز پاک فضائیہ نے انتباہ کے طور پر حملہ کیا۔ پاک فضائیہ نے بھارتی طیارہ مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو گرفتار کیا۔ بھارتی فورسز نے الجھن میں اپنا ہی ہیلی کاپٹر مار گرایا جس سے اس میں سوار ایک بھارتی فوجی ہلاک ہوا۔ مودی نے اس تماشے کا خوب فائدہ اٹھایا اور وہ بھاری مینڈیٹ لے کر انتخابات میں کامیاب ہوئے۔
موہن بھاگوت کی جانب سے جنگ کی کال ایک پریشان کُن پیٹرن کی نشان دہی کرتی ہے۔ نومبر 2008ء میں ممبئی حملے کے بعد آر ایس ایس کے سابق سربراہ کے سدرشن نے پاکستان پر ایٹمی حملے کی حمایت کی اور پاکستان کو خبردار کیا کہ وہ تیسری جنگِ عظیم کی تیاری کرے۔ فری لانس جرنلسٹ کو دیے گئے اس وقت کے آر ایس ایس سربراہ کے اس انٹرویو نے لوگوں کو پریشان نہیں کیا تھا کیونکہ خوش قسمتی سے اس وقت بھارت کی باگ ڈور ایک معقول رہنما کے ہاتھ میں تھی۔
من موہن سنگھ نے ممبئی دہشت گرد حملے پر اپنے وزیرداخلہ کو برطرف کردیا لیکن طبلِ جنگ نہیں بجایا۔ قوم پرستی کے جنون کا سہارا لیے بغیر ہی وہ 2009ء کے انتخابات میں کامیاب ہوگئے تھے۔ درحقیقت انہوں نے تو پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات میں بھی حصہ لیا جس کی مثال شرم الشیخ میں پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ان کی ملاقات ہے۔
ماضی میں جب مشتعل ہجوم اور ٹی وی چینلز بھارتی قوم پرستی سے متاثر نہیں تھے تو اس وقت کانگریس پارٹی انتہاپسند جذبات کو کم کرنے میں مدد کرتی تھی۔ آج کانگریس بھی قوم پرستی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ انہیں دوسروں سے کم محب الوطن سمجھا جائے۔
پہلگام حملے کے بعد مودی حکومت کے تمام اقدامات کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کانگریس نے دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان فرق کو ختم کردیا ہے۔ جیسے عراق پر حملے کے وقت امریکی ری پبلکن جماعت اور ڈیموکریٹس یا برطانوی لیبر اور ٹوری جماعت کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ سنگین سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ناکامیوں پر سوال کرنے کے بجائے حکومت کو فری ہینڈ دے کر کانگریس نے بحران کے وقت کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔
اپوزیشن جماعتیں بالخصوص کانگریس کے ترجمانوں نے پہلگام واقعے کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے خلاف اپنی آوازیں اٹھائی ہیں۔ لیکن حکومت سے ان شواہد کا تقاضا کرنا ریاست کے خلاف جانا کیوں محسوس ہوتا ہے جن کی بنا پر وہ پاکستان پر انگلی اٹھا رہی ہے؟ عالمی میڈیا نے بھارتی بیانیے میں جھول کی نشان دہی کی ہے۔ دی نیویارک ٹائمز نے کہا ہے کہ بھارت کے پاس پاکستان کے خلاف شواہد موجود نہیں جو ان کے دعوے کی تائید کرسکیں۔
جنگ کا صور پھونکنے کے لیے جس رامائن افسانے کا سہارا لیا جارہا ہے، اس میں جٹایو نام کا ایک اہم کردار ہے جوکہ ایک پرندہ ہے لیکن وہ انسان کی طرح بات کرسکتا ہے۔ جٹایو راما کی بیوی سیتا کے اغوا کا عینی شاہد تھا۔ اس کی گواہی نے رام کو راون کے خلاف جنگ پر اُکسایا۔ بدقسمتی سے رامائن کی کہانی کے حکومتی ورژن میں جنگ کا جواز پیش کرنے والے جٹایو جیسا کوئی واضح ثبوت یا گواہی موجود نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: جاوید نقوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha