شرم الشیخ اجلاس کے شرمناک اور ذلت آمیز حقائق برملا ہونے کے بعد، صدر اسلامی جمہوریہ ایران، ڈاکٹر پزشکیان کے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو خراج تحسین پیش کی جا رہی ہے گوکہ کچھ لوگوں نے اس سے پہلے اس کو ایک غلط فیصلہ قرار دیا تھا اور شرم الشیخ اجلاس کو مصالحت کے ایک امکان کے طور پر متعارف کرایا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ 12 روزہ جنگ میں امریکہ اور صہیونی ریاست کے سامنے ایران کی ڈٹ جانے اور ان دونوں حکومتوں پر کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ جنگ کے بعد کے دور میں تیاری برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے نے عالمی سطح پر اسلامی نظام کی پوزیشن کو مستحکم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ٹرائیکا کے رہنما، امریکہ کے حکم اور دباؤ پر، "اسنیپ بیک" (Snapback) کے ذریعے ملک کے اقتصادی اور سماجی سکون اور استحکام کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایران کے عوام میں اتحاد اور یکجہتی کی ناکامی کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنے خیال میں وہ ایران کے عوام کے ہتھیار ڈالنے کی راہ ہموار کر سکیں۔ لیکن یہ آرزو بھی قبر میں لے کر جائیں گے۔
شرم الشیخ میں ٹرمپ کی توہین آمیز رویوں سے عیاں ہؤا کہ ان کے سامنے جھکنے اور کرنش بجا لانے کا نتیجہ ذلت اور خفت کے سوا کچھ نہیں ہے اور مزاحمت و مقاومت ہی عزت و سربلندی کا تحفہ لاتی ہے۔
عطوان کا کہا تھا: "شرم الشیخ سربراہی اجلاس میں امریکی صدر نے امن پسندانہ امیج پیش کرنے کی کوشش کی؛ حالانکہ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ وہ اور امریکی حکومت غزہ میں صہیونی جرائم کے اصل حامی ہیں۔/ ایران کی شرم الشیخ میں عدم شرکت حکیمانہ تھی / ٹرمپ کو ایران کا جواب مضبوط اور عزتمندانہ تھا۔"
وزیر خارجہ نے ایران کی جانب سے شرم الشیخ اجلاس میں شرکت کی دعوت قبول نہ کرنے پر کہا: ہم ان لوگوں کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتے جنہوں نے ایرانی عوام پر حملہ کیا ہے اور اب بھی ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں اور پابندیاں لگا رہے ہیں۔