ٹرمپ امن منصوبے کا مقصد: تمام فلسطین پر تسلط اور فلسطینیوں کے حقوق کا خاتمہ / مقاومت کا اسلحہ ناقابل سمجھوتہ
گذشتہ ہفتے، صہیونی میڈیا نے ڈونلڈ ٹرمپ کے تجویز کردہ امن منصوبے پر حماس کی طرف سے ردعمل، بین الاقوامی "صمود" بیڑے پر حملے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری کے نتائج، صہیونی ریاست کے حالیہ اقدامات کی عالمی مذمت، اور غزہ کی پٹی میں نسل کشی اور وسیع پیمانے پر تباہی کے تسلسل پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔
بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || العالم نیوز نیٹ ورک نے اپنے پروگرام "العین الإسرائيليہ" کے اس حصے میں، فلسطینی مصنف اور صحافی حمزہ البشتاوی کی موجودگی میں، ٹرمپ کے امن منصوبے کے اہم نکات کا جائزہ لیا گیا۔
فلسطینی صحافی البشتاوی نے نشاندہی کی کہ جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، ٹرمپ منصوبے پر حماس کے جواب نے تین چیزوں پر زور دیا: فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کی جنگ فوری بند ہونی چاہئے، قیدیوں کا تبادلہ ہونا چاہئے اور غزہ کے عوام کے لئے ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے۔
عرب دنیا اس ممتاز تجزیہ کار نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تینوں مسائل فلسطین کی تمام مقاومتی تحریکوں اور فلسطینی عوام اور مقاومت کی حمایت کرنے والے تمام حریت پسندوں کی ترجیحات ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ تین نکات ٹرمپ کے بیس نکاتی منصوبے کا حصہ ہیں، جس کی وضاحت اور نفاذ کے طریقہ کار پر قاہرہ میں مذاکرات ہونگے۔
انھوں نے کہ حماس کے بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کے انتظام کی ذمہ داری ایک فلسطینی کمیٹی کے پاس ہونی چاہئے نہ کہ کسی نئی بین الاقوامی 'سرپرستی' (Guardianship) کے تحت۔
البشتاوی نے زور دے کر کہا: "حماس کے تجویز کردہ منصوبے کی منظوری، درحقیقت 'مکمل فتح' کے بنیامین نیتن یاہو کے دعوے کی ناکامی' ہے۔ محور مقاومت اور فلسطین کے تمام حامی گروپوں کا ماننا ہے کہ فوری اور ناقابل سمجھوتہ مطالبہ یہ ہے کہ صہیونی ریاست غزہ میں نسل کشی کی جنگ کو فوری طور پر روک دے۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور جارحیت ختم ہو جاتی ہے، تو اس نتیجے کو مقاومت کی ایک بڑی کامیابی سمجھا جا سکتا ہے۔"
اس سیاسی تجزیہ کار نے مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے معاملے کو ناقابل سمجھوتہ قرار دیتے ہوئے کہا: "یہ ہتھیار 'فلسطینی عوام کے ہتھیار' ہے، یہ ہتھیار قبضے، ذلت، توہین اور زمینوں کے غصب کے خلاف مزاحمت کی علامت ہیں اور فلسطینیوں کی عزت و وقار کی علامت ہیں؛ حماس اور مقاومتی تحریکیں اس اصول سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔"
البشتاوی نے کہا: "مقاومت کو غیر مسلح کرنا کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس پر حماس اکیلے بات چیت کر سکے، لیکن حال ہی میں حماس نے بعض فلسطینی گروہوں کے اتفاق سے اعلان کیا ہے کہ ہتھیاروں پر بحث کا براہ راست تعلق صہیونی قبضہ کاری فوج کے غزہ سے پسپائی کی حدود سے ہے۔"
اس عرب تجزیہ کار نے ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ منصوبہ درحقیقت بنیامین نیتن یاہو اور غاصب ریاست کے حق میں مراعاتوں کا ایک مجموعہ ہے۔
انھوں نے مزید کہا: "ٹرمپ اس منصوبے کو غزہ کی پٹی اور سارے فلسطین پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق اور مقاصد مکمل طور پر مٹا دینے کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔"
البشتاوی نے کہا: "اس منصوبے کے نکات کا بغور جائزہ لیا جائے تو جو بائیڈن کے سابقہ منصوبے سے اس کی واضح مماثلت نظر آتی ہے، وہ منصوبہ جسے قابض ریاست نافذ کرنے میں ناکام رہی تھی۔"
البشتاوی نے یاد دہانی کرائی کہ "اس سے پہلے بھی، مزاحمت اور اس کے حامی محاذوں نے اسحاق رابین، بایڈن اور امریکہ کی پچھلی اور موجودہ حکومتوں کے مجوزہ تمام منصوبوں کو مسترد کر دیا تھا، کیونکہ ان کا واحد بنیادی مطالبہ یہی رہا ہے کہ نسل کشی کی جنگ بند کی جائے اور صہیونی جارحیت کو روکا جائے۔"
انہوں نے کہا: "ان نکات کا نفاذ مذاکرات کے بغیر ناممکن ہے؛ ٹرمپ کے منصوبے کے حوالے سے حماس کے موقف کی وضاحت کے لئے قاہرہ میں مذاکرات ہوں گے؛ حماس کو تمام فلسطینی مقاومتی تنظیموں اور تحریکوں اور فلسطینی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس منصوبے کو، جو جارحیت کو روکنے کے لئے ہے، ایک ایسے منصوبے میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے جو پورے خطے کی شکل تبدیل کر دیتا ہو!۔"
حمزہ البشتاوی نے العالم نیوز نیٹ ورک کے پروگرام "العین الإسرائيليہ" میں اپنی گفتگو کے اختتام پر زور دے کر کہا: "بدقسمتی سے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اسرائیل دوبارہ جنگ شروع نہیں کرے گا؛ امریکہ ـ جو اس جارحیت میں اسرائیلی ریاست کے تمام جرائم اور قتل و غارت اور مصنوعی قحط اور جبری بھکمری میں برابر کا شریک ہے، منصوبے کا مالک ہے اور ضمانتوں کا بھی مالک ہے، اور یہ معاملہ سفارتی قواعد و ضوابط کے لحاظ سے بہت عجیب ہے؛ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں اہم نکات مبہم طریقے سے پیش کئے گئے ہیں اور واضح نہیں ہیں۔"
نکتہ:
10 عرب اور اسلامی ممالک اس منصوبے میں ٹرمپ کے زیر دستخط آگئے اور انہوں نے پھر بھی امریکہ سے جان بوجھ کر دھوکہ کھایا۔ ایک سادہ سا نکتہ جو انہوں نے 'جان بوجھ کر' نہیں دیکھا کہ صہیونی ریاست کا منصوبہ 'گریٹر اسرائیل' اپنی جگہ پر قائم ہے اور منصوبے میں اس کی منسوخی کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہؤا ہے۔ جب گریٹر اسرائیل کا منصوبہ باقی ہے تو ٹرمپ اور نیتن یاہو کیونکر قابل اعتماد ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ