9 اکتوبر 2025 - 23:58
غزہ کی فتح؛ طوفانی معمول سازی!

طوفان الاقصیٰ  کو دو سال گذر گئے ہیں؛ یہ وہ طوفان تھا جس نے نہ صرف صہیونی ریاست کی سلامتی کی دیواریں گرا دیں بلکہ دنیا کی ذہنی سرحدوں کو بھی بدل ڈالا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || جس دن مقاومت نے غزہ سے جنم لیا اور یہ مسلح قابض طاقت کے سامنے کھڑی ہوئی، بہت سوں نے سمجھا کہ یہ بھی چند روزہ جنگ ہوگی۔ لیکن طوفان الاقصیٰ  ایسی جنگ تھی جو مٹی اور خون سے ہوتی ہوئی عالمی شعور کی چوٹیوں پر گونجی۔

اس طوفان نے بیداری کو سرحد پار منتقبل کر دی، مغرب کی یونیورسٹیوں سے لے کر پیرس اور نیویارک کی سڑکوں تک، مسلم معاشروں سے لے کر لاطینی اقوام تک، عالمی بیداری اور مظلوموں کے ساتھ ہمدردی کے کے جھونکے آنے لگے۔

وہ نوجوان جو شاید کل تک فلسطین کو دنیا کے نقشے پر ایک دور دراز کا چھوٹا سا نقطہ سمجھتے تھے، آج اس کا پرچم اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں اور عالمی ضمیر پھر سے "غزہ" کا نام پکار رہا ہے۔

طوفان الاقصیٰ  نے نہ صرف اسرائیل کی جنگی مشین کو للکارا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، مغرب کی جھوٹی اخلاقی برتری کی داستان اور تہذیب یافتگی کے بیانئے کو بھی تباہ کر دیا۔

وہ چہرہ جو دہائیوں تک "انسانی حقوق" اور "جمہوریت" کے نقاب میں چھپا ہوا تھا، اس طوفان میں بے نقاب ہو گیا۔

جب امریکی اور یورپی بم غزہ کے بچوں پر گرے، تو دنیا کی رائے عامہ نے سمجھ لیا کہ مغرب کے اخلاقی معیار صرف اسی وقت تک معنی رکھتے ہیں جب تک اس کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچتا۔

اس بیداری کے قلب سے ایک نیا تصور پیدا ہؤا: 'معمول سازی (Normalization)'، معمول سوزی بن گئی۔ وہ معاہدے جو اربوں ڈالر کے اخراجات اور سفارتی مسکراہٹوں کے ذریعے قائم کئے گئے تھے، اچانک بے اعتبار ہو گئے۔

خطے کے عوام نے دیکھا کہ مذاکرات کی میز پر مظلوم کے لئے کوئی امن نہیں ہے۔ آج کوئی بھی عرب حکومت جو ہاتھ وہ تل اویب کی طرف بڑھائے، وہ جانتی ہے کہ وہ ہاتھ رائے عامہ میں جل کر راکھ ہو جائے گا۔

طوفان الاقصیٰ  نے اپنے شہیدوں کے خون سے اس پراجیکٹ پر "باطل شد"  (Cancelled) کی مہر لگا دی جو برسوں سے پراپیگنڈے، رشوت اور دھمکیوں کے ذریعے چل رہا تھا۔ لیکن:

شاید اس طوفان کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ عوام آگے تھے اور حکمران ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے؛ اس بار سیاست کو گلیوں سے تحریک ملی، اس کے برعکس نہیں اور حکمران پالیسی ساز نہیں رہے۔

عرب دنیا میں، یورپ میں، امریکہ میں، لاکھوں لوگوں نے پکارا "غزہ اکیلا نہیں ہے"۔

جس کسی رہنما یا حکومت نے اس عوامی لہر کو نظر انداز کیا، اس نے اپنی عزت خود اپنے ہاتھوں سے کھو ڈالی۔

کچھ عرب حکمرانوں کی خاموشی سے لے کر مغرب میں آزادی کے دعویداروں کے دوغلے پن تک، سب اس طوفان کے اخلاقی امتحان میں ذلیل و رسوا ہو گئے۔

طوفان الاقصیٰ  نے دکھایا کہ مزاحمت محض ایک فوجی جنگ نہیں ہے؛ یہ ایک discourse ہے، ایک مکتب ہے، ایک آئینہ ہے جس کے سامنے کھڑا ہر شخص اپنا حقیقی چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ اس طوفان نے یاد دلایا کہ حقیقی طاقت ہتھیاروں کے ڈھیر میں نہیں، بلکہ عوام کے ایمان اور ضمیر کی آواز میں ہے۔

آج، اگرچہ غزہ کا محاصرہ بدستور قائم ہے اور جنگ کی راکھ زمین پر پڑی ہے، لیکن ایک گہری چیز زندہ ہو گئی ہے: دنیا کے قواعد بدلنے کے لئے عوام کی طاقت پر اعتماد۔

طوفان الاقصیٰ  شاید فوجی نقشوں پر ختم ہو گیا ہو، لیکن یہ انسانوں کے دلوں میں زندہ ہے؛ وہ طوفان جس نے دنیا کے کونے کونے میں بیداری پیدا کی، دیواریں توڑ ڈالیں اور دکھایا کہ سچ، چاہے دیر سے ہی سہی، ملبے میں سے اپنا راستہ ضرور بنا لیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: مسعود پیر ہادی، صحافی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha