بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، بشار الاسد کی قانونی حکومت گرانے پر امریکہ اور یورپ کا اصرار کافی حد تک سمجھ میں آتا تھا اور یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ صہیونی ریاست کا راستہ ہموار کرنے کے خواہاں ہیں اور ان کے پاس شام کے مستقبل کا منصوبہ بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ شام کے فوجی، صنعتی اور سائنسی ڈھانچوں کو تباہ کیا جائے اور پھر اس نہتے ملک کو کئی چھوٹی کٹھ پتلی ریاستوں میں تقسیم کیا جائے لیکن شام کی تباہی پر عربوں اور اردوان کے اصرار کو صرف مغربی عزائم کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ صرف مغرب اور صہیونی ریاست کے کہنے پر شام کو تباہ کرنا چاہتے تھے اور خود ان کے پاس شام کے مستقبل کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ آج کا شام اور امریکی فریب کو ذیل کے جملوں میں دیکھئے:
• عدم تحفظ، جرائم، داخلی جھگڑے اور صہیونی ریاست کا شام کے جنوب مغربی حصوں پر قبضے کی لالچ اس وقت شدت اختیار کر گئی جب مغربی ذرائع اور مغرب پرست حکومتوں اور حکمرانوں کا دعویٰ یہ تھا کہ بشار الاسد کا تختہ الٹنے اور تحریر الشام کے دمشق پہنچنے سے شام کے عوام پر امن، آزادی اور خوشحالی کے دروازے کھلنے کا دور آیا ہے!
• لیکن ان پروپیگنڈوں کے سات مہینے بعد، ـ جبکہ الجولانی نے سعودی ولی عہد کی وساطت میں، ٹرمپ سے ملاقات کی اور مذاکرات کئے اور ان سے اپنے حق میں تعریفیں سُنیں اور امریکہ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ پابندیاں اٹھا لے گا، ـ شام عدم تحفظ، عدم استحکام اور قریب الوقوع تقسیم کے انتہائی خطرناک دور میں پہنچ چُکا ہے۔
• ایک بار پھر امریکی فریب کاری اور تبدیلیوں کا جائزہ لیجئے: انھوں نے دہشت گرد گروہ تحریر الشام کے سربراہ کو، جو ان ہی کا پالا پوسا ہے، کوٹ، پتلون اور ٹائی پہنا کر اسے "آزاد شام" کا صدر بنا دیا۔ ایک ایسی حکومت اور صدارت جس کا نہ کوئی آئین تھا، نہ عوامی ووٹ اور نہ ہی انتخابات!
• ٹرمپ نے اس سے ملاقاتیں اور مذاکرات بھی کئے اور یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ کچھ سال پہلے تک وہ اسی کے گرفتاری پر ایک کروڑ ڈالر کے انعام کا اعلان کرتے تھے۔ اصل مقصد یہ تھا کہ وہ عرب ممالک کے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی معمول سازی کو بھی قبول کر لے۔
• یہاں تک کہ ٹرمپ نے الجولانی کی بے تکی تعریفیں بھی کیں اور کہا: "میں نے شام کے نئے لیڈر سے ملاقات کی؛ وہ مضبوط پس منظر کا حامل ہے۔ ادب سے کہوں تو، اس کا ماضی بہت پختہ ہے؛ وہ مجھے وہ بہت پسند آیا۔ میرے خیال میں ہمیں اچھا نمائندہ ملے گا۔ ایسے ملک کے انتظام کے لئے مضبوط ماضی کا حامل چاہئے ہوتا ہے۔ اگر آپ کمزور ہوں تو وقت ضائع ہوتا ہے۔ وہ مضبوط آدمی ہے اور میرے خیال میں اچھا تھا"۔
• اس ڈرامے کو مزید قابل یقین بنانے اور شامی عوام (اور خطے کی دیگر قوموں) کو مزید دھوکہ دینے کے لئے، ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ نئی حکومت کے دور میں شام پر لگی پابندیاں اٹھا لے گا۔
• لیکن یہ سب محض دکھاوا تھا اور اس کے ساتھ نہ کوئی ضمانت تھی نہ تحفظ۔ حقیقت میں، عدم تحفظ، جبر، جرائم اور خونریزی ماضی کے مقابلے میں دس گنا بڑھ چکی ہے۔ شام تقسیم کے دہانے پر ہے، کیونکہ صہیونی ریاست یہی چاہتا ہے۔"
نکتہ:
ایک اہم نکتہ یہ کہ وہاں ٹرمپ ریاض میں الجولانی کی تعریفوں کا تانتا بانھے ہوئے تھے اور امریکہ میں، وزیر خارجہ مارکو روبیو، نے خبردار کیا کہ شام کو عنقریب خانہ جنگی کے خطرے کا سامنا ہے، جس کے پہلو بہت تباہ کن ہیں اور کچھ اخبارات نے روبیوں کی باتوں پر تبصرہ بھی لکھا کہ "امریکی سفارتی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عبوری حکومت بہت جلد وسیع البنیاد خانہ جنگی سے دوچار ہوسکتی ہے جس کے پہلو تباہ کن ہونگے اور اس کا نتیجہ اس ملک کی تقسیم کی صورت میں درآمد ہوگا"۔ مارکو روبیو نے پیش گوئی نہیں کی تھی بلکہ اپنا منصوبہ بیان کیا تھا جس پر اس وقت عمل درآمد ہو رہا ہے۔
کیا یہ سوال آپ کے ذہن میں ابھی نہیں ابھر سکا ہے کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی مغربی تہذیب فریبی اور جھوٹی اور اسلام دشمن ہے؟ کیا یہ سوال آپ کے ذہن میں نہیں آیا کہ "فریبی مغربی تہذیب نے شام کے ساتھ یہ کیا کیا؟
کیا ہمارے قارئین اب بھی شام کا دفاع کرنے والے مدافع حرم تنظیموں پر ملامت کرنا پسند کریں گے؟ کیا انہیں مقاومت کی کمی محسوس نہیں ہو رہی ہے؟
کیا شام کے مسئلے کو فرقہ وارانہ نگاہوں سے دیکھنے والے عرب اور اسلامی دنیا کے حکمران اب بھی سمجھ رہے ہیں کہ بشار الاسد کی حکومت کو جانا چاہئے تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ