اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق،سابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نِد پرائس نے کہا ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے وہ سب کچھ کیا جو اُن کی طاقت میں تھا تاکہ حماس کے کسی معاہدے یا منظوری کے امکانات ختم کر دیے جائیں۔
پرائس نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ نتن یاہو نے متن میں ترمیمات سے لیکر عبرانی زبان میں تیز اور جارحانہ بیانات تک ہر ممکن قدم اٹھایا تاکہ حماس کی طرف سے موافقت کے امکانات کم کیے جائیں۔ انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ حماس نے بالکل بھی بلاشرط طور پر منظوری نہیں دی، البتہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نوبل انعام حاصل کرنے کی خواہش نے عجیب طور پر ایک ایسا دروازہ کھول دیا ہے جو شاید حالات کو آگے لے جائے۔
پرائس نے زور دیا کہ اس جنگ کا خاتمہ ضروری ہے، غیردفاعی فلسطینی شہریوں کو امن میں رہنے کا حق ملنا چاہیے اور جبراً پکڑے گئے افراد کو گھر لوٹایا جانا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق حماس نے ٹرمپ کے آتش بس منصوبے کے جواب میں جنگ کے مکمل خاتمے، قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کی خودمختار انتظامیہ کی شرائط کے تحت معاہدے کی حمایت ظاہر کی اور آئندہ غزہ کے معاملات کو فلسطین کے قومی مفادات کے دائرے میں حل کرنے پر زور دیا۔
دونالڈ ٹرمپ نے جمعہ کی شام کہا کہ حماس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ حماس پائیدار امن کے لیے تیار ہے اور اُن کے مطابق اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری روک دینی چاہیے تاکہ قیدیوں کی جلد اور محفوظ رہائی ممکن ہو سکے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ابھی تفصیلات پر بات ہو رہی ہے اور یہ معاملہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے دیرپا امن سے متعلق ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے بھی حماس کے مشروط جواب کو خوش آئند قرار دیا اور اسے حوصلہ افزا کہا ہے۔
آپ کا تبصرہ