اگر 20 لاکھ فلسطینی غزہ سے نکل جائیں تو غاصب ریاست
کا مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن راہ حل کیا ہے؟ ٹرمپ انہیں مستقل طور پر نکالنا
چاہتا ہے لیکن وہ جائیں گے کہاں اور کیسے؟ کونسا ملک ان کی میزبانی کرے گا؟ معلوم
نہیں۔ یہ تصور غیر عملی اور غیر عقلی اور احمقانہ ہے۔
ٹرمپ کے اس احمقانہ منصوبے کے نفاذ کا ذمہ کون
اٹھائے گا؟ کیا امریکی فوج اس خطرناک
منصوبے کو نافذ کرے گی؟ حماس ایک طاقتور فورس ہے، تو کیا ٹرمپ سمجھتا ہے کہ وہ ہتھیار
ڈال کر صحرائے سینا میں جا کر روئے زمین سے مٹ جائے گی؟
غزہ کی تعمیر نو کا خرچہ کون دے گا؟ یقینا ٹرمپ
ایسا نہیں کرے گا۔ ٹرمپ کی سوچ شاید یہ ہے کہ USAID اور
وزارت تعلیم کا بجٹ حذف کرکے اس کے اخراجات پورے ہونگے لیکن یہ تو ٹرمپ کے "America First"
سے متصادم ہے!
ٹرمپ کے اس خیالی پلاؤ کے مطابق غزہ سیاحتی مرکز
اور مشرق وسطیٰ میں ـ افسانوی والہالا valhalla ـ
بن جائے گا، ایون مسک یہاں ساحلی ہوٹل بنائے گا اور "غزہ ریویرا (Riviera) کے
عنوان سے ابھرے گا جہاں ٹرمپ کے ارب پتی دوست تفریحی کشتیوں کو لنگر انداز کریں گے
اور بحیرہ روم کی دھوپ سے لطف اندوز ہونگے!
یہ خیال اس قدر خام اور غیر حقیقی ہے کہ وائٹ
ہاؤس کو اپنے صدر کے بیان کی اصلاح کرنا پڑی اور پریس ترجمان نے کہا کہ "یہ
کہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ غزہ کا مالک بن جائے گا، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ امریکہ
اس کی تعمیر نو کے اخراجات برداشت کرے گا یا اپنی فوج غزہ میں بھیج دے گا!!
بالکل درست! امریکہ اپنا پیسہ فلسطینیوں کے لئے
کیوں خرچ کرے گا جس نے اس کی تباہی کے لئے پیشگی اخراجات برداشت کر ہی لیے ہیں؟ لیکن
اخراجات برداشت کرنے کے بغیر غزہ کا مالک بننا کیونکر ممکن ہوگا؟ کیا ایک عربی
کنسورشیم بنایا جائے گا؟ جیسا کہ ایسا ہی عربی کنسورشیم کو میکسیکو کے ساتھ بنائی
جانے والی دیوار کے اخراجات برداشت کرنا تھے!
یعنی ٹرمپ کا منصوبہ بدستور احمقانہ اور بے
وقوفانہ ہے۔
ٹرمپ کی تجویز کے خطرناک نتائج
یہ منصوبہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان
تعلقات کی بحالی کے امکانات کو مکمل طور پر ختم کرے گا۔ "ابراہیم
معاہدہ" جو ٹرمپ کے پہلے دور کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا، تباہ و برباد ہو
کر رہ جائے گا، مصر اور اردن کے ساتھ اسرائیلی امن معاہدے ـ جو کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی
خارجہ پالیسی کے دو ستون ہیں ـ ختم ہو کر رہ جائیں گے، اور امریکی خارجہ پالیسی کو
زبردست دھچکا لے گا اور ایران کا موقف پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہوجائے گا۔
ٹرمپ بھول گیا ہے کہ اس نے بیرونی ممالک میں بے
فائدہ مداخلتوں پر تنقید کو اپنی انتخابی مہم کا کلیدی اصول قرار دیا تھا۔
یہ منصوبہ نہ صرف ناقابل عمل بلکہ بہت زیادہ
خطرناک ہے اور سب سے بدتر یہ کہ یہ منصوبہ بائیڈن کا ہے، چنانچہ باعث حیرت نہیں ہے
کہ نیتن یاہو نے یہ بات ٹرمپ کی زبان سے سنی تو اس کے چہرے پر پراسرار ہنسی نمودار
ہوئی!
قومی صفایا Ethnic
Cleansing؟
ٹرمپ نے درحقیقت تجویز دی ہے کہ امریکہ غزہ میں
فلسطینی کا قومی صفایا Ethnic Cleansing کرنے میں حصہ لے۔ امریکہ
اور قومی صفایا! کیا یہ جنون نہیں ہے؟
ٹرمپ کا دعوی ہے کہ دنیا کے راہنما ـ یہاں تک کہ
خطے کے عرب ممالک بھی ـ اس کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں، یہ سفید جھوٹ ہے۔
ٹرمپ = نیتن یاہو ملاقات کے فورا بعد، سعودی عرب
نے بیان جاری کرکے فلسطین میں دو ریاستی حل کی حمایت کی، اور مصر اور اردن نے فلسطینیوں
کی اپنی سرزمینوں میں منتقلی کے کسی بھی منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا۔ کوئی بھی
ملک اتنی بڑی آبادی کی میزبانی کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ کا بدستور
اصرار ہے کہ "عوام" اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں، وہی "عوام"
جنہوں نے 2020 کے انتخابات میں اس کی کامیابی کا دعوی کیا تھا۔
امریکہ مشرق وسطیٰ سے کیا چاہتا
ہے
قومی صفایا اور جدید سامراجیت
کبھی بھی امریکیوں کی براہ راست پالیسیوں کا حصہ نہیں رہی ہے گوکہ وہ اس طرح کی
پالیسیوں کے خلاف بھی نہیں رہا ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ یہ ہماری پالیسی تھی اور نہ
ہے، یہ ہم نہیں ہیں، یہ ٹرمپ ہے!
شاید کچھ لوگ اس ٹرمپی پالیسی کی رو سے
رضاکارانہ طور پر غزہ سے چلے بھی جائیں اور "کہیں اور" بسیرا کریں لیکن
یہ "کہیں اور" ہے کہاں؟ اگر کوئی سیاسیات سے ناآشنا ہو تو ممکن ہے کہ
ٹرمپ کی پالیسی سے اتفاق کرے، لیکن جیسا کہ شیکسپیئر کے مشہور المیہ ڈرامے میک بیتھ
(Macbeth) میں کہا گیا ہے یہ "خیالی خنجر" ہے
"ایک وہم" ہے۔
شاید ہی غزہ ایک بمباری کا شکار ہونے والا کھنڈر
بن چکا ہو لیکن وہاں رہنے والے فلسطینی اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔ غزہ ان کے
لئے فلسطین کا آخری مورچہ ہے۔ اگر ٹرمپ غزاوی فلسطینیوں کو نقل مکانی کی ترغیب
دلانا چاہتا ہے تو اس کو انہیں انتہائی پرکشش
مالی اور مادی پیشکش دینا پڑے گی، جیسا کہ سی آئی اے نے حساس علاقوں سے نکلتے وقت ایسا
ہی کیا تھا۔
امریکہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے تو کہا ہے
کہ فلسطینی غزہ سے نکل جائیں، جہاں بھی جائیں، جیسے بھی جائیں، جس نئے عذاب سے بھی
دوچار ہوجائیں، امریکہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے!
تو اب آپ بتائیں کہ ٹرمپ کا منصوبہ احمقانہ نہیں
ہے تو کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

