اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے لیے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے پر اپنا باضابطہ جواب وسطی ثالثوں کے ذریعے دے دیا ہے۔ تاہم، حماس نے اس منصوبے کی چند مبہم شقوں کی وضاحت طلب کی ہے۔
الجزیرہ اور العربیہ نیوز چینلز نے جمعہ کی رات رپورٹ دی کہ حماس نے ٹرمپ کی تجویز کردہ جنگ بندی کے منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے، مگر کچھ نکات پر وضاحت چاہی ہے جو ابھی غیر واضح ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے یہ درخواست ان خدشات کی عکاسی کرتی ہے کہ یہ منصوبہ ممکن ہے اسرائیلی قبضہ کاروں کے حق میں ہو یا فلسطینی قوم کے حقوق کو نظر انداز کرے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ۲۰ نکات پر مشتمل ایک جامع منصوبہ پیش کیا تھا، جس میں فوری جنگ بندی، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی فوجیوں کی طے شدہ لائنوں پر واپسی اور غزہ کی بحالی و انتظام کے لیے ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔
یورپی رہنماؤں کی جانب سے اس منصوبے پر محتاط ردعمل آیا ہے، اور فلسطینی خودمختاری، عبوری حکومت کے کردار اور اس منصوبے کے نفاذ کی ضمانتوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی تجویز فلسطینیوں کے جائز حقوق اور مطالبات کے برعکس جانبدارانہ اور ناقص ہے۔ ناقدین کے مطابق اس منصوبے میں فلسطینی گروپوں کے کردار کو نظر انداز کیا گیا ہے، غزہ کے مستقبل کو عارضی بین الاقوامی نگرانی تک محدود کیا گیا ہے اور کسی بھی حقیقی ضمانت کے بغیر فلسطینی ریاست کے قیام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ بحران کا منصفانہ حل نہیں بلکہ اسرائیلی حکومت کے موقف کو مضبوط بنانے اور واشنگٹن و تل ابیب کے مفادات کے لیے عارضی انتظام ہے۔
اگرچہ کچھ ممالک اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں، فلسطینی مزاحمتی گروپوں بشمول حماس نے اس کے مختلف پہلوؤں، خاص طور پر حفاظتی ضمانتوں، گذرگاہوں کی صورتحال اور غزہ و مغربی کنارے کے سیاسی مستقبل کے بارے میں وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔
ٹرمپ نے جمعہ کو ایک سخت بیان میں حماس کو خبردار کیا کہ اگر وہ اتوار کی شام تک (واشنگٹن کے وقت ۶ بجے شام) اس منصوبے پر اتفاق نہ کرے تو وہ خاورمیانہ میں "ایک ایسی آگ" بھڑکا دیں گے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی، اور کسی بھی صورت میں خطے میں امن قائم کیا جائے گا۔
آپ کا تبصرہ