8 نومبر 2025 - 02:28
ٹرمپ نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا مطلب دنیا کو سمجھا دیا!

امریکی نقطہ نظر سے مذاکرات میں ہمیشہ کچھ خاص پوشیدہ اور غیر تحریری معانی شامل ہوتے ہیں، لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے حوالے سے ایک بیان میں ان معانی کے بڑے حصے کو بے نقاب کر دیا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود کو "عظیم امن ساز [Peace Maker]" جیسے الفاظ سے متعارف کراتے ہیں، ان کا تازہ اعتراف نہ صرف ان کی خارجہ پالیسی بلکہ امریکی پالیسی کے ایک بڑے راز سے پردہ اٹھایا ہے۔

انھوں نے کل پہلی بار اعتراف کیا کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی مسلط کردہ 12 روزہ جنگ ان کی ہدایت پر ہوئی تھی!

امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے سامنے ایران پر حملے کے بارے میں کہا: "پہلے اسرائیل نے حملہ کیا۔ وہ حملہ بہت بہت طاقتور تھا۔ میں ان حملوں کا بہت حد تک ذمہ دار تھا۔"

ٹرمپ کے یو ٹرنز

ٹرمپ کے یہ بیانات 12 روزہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ان کی حکومت کے موقف کے مقابلے میں ایک واضح 'ٹرن "Turn"' سمجھے جا رہے ہیں۔

ٹرمپ حکومت کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایران کے جوہری مراکز پر اسرائیلی حملوں کے فوراً بعد کہا تھا: "آج رات اسرائیل نے ایران کے خلاف یکطرفہ حملہ شروع کیا ہے۔ ہمارا ایران کے خلاف حملوں میں کوئی کردار نہیں ہے اور ہماری پہلی ترجیح خطے میں امریکی فوجیوں کی حفاظت ہے۔"

امریکی حکومت کے اس وقت اس جنگ سے دوری اختیار کرنے کے متعدد محرکات تھے، جن میں امریکہ کے ساتھ 'سفارت کاری کے ناقابل اعتماد ہونے' کو چھپانا بھی شامل تھا؛ کیونکہ یہ حملے بالکل اسی وقت ہوئے جب تہران اور واشنگٹن کے درمیان بالواسطہ جوہری مذاکرات جاری تھے۔

اسرائیلی حملے جمعہ 13 جون کی صبح شروع ہوئے، یعنی ایران اور امریکہ کے نمائندوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے ـ طے شدہ ـ چھٹے دور سے محض دو دن قبل۔

تاہم ٹرمپ کے نئے اعتراف سے بالکل عیاں ہؤا کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہی اسرائیلی ریاست کے ساتھ ایران پر حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے اور انھوں نے بات چیت کے ڈھونگ کو فوجی منصوبہ بندی کے لئے فریب کارانہ کاروائی (Deception Operation) کے طور پر استعمال کیا۔

ٹرمپ سے آگے

لیکن اس رویے کو صرف ڈونلڈ ٹرمپ تک محدود کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ تاریخی نقطہ نظر سے ٹرمپ کا رویہ نہ صرف نیا نہیں ہے بلکہ ایک 'غیر تحریری ثقافت' کا تسلسل ہے جو امریکی سیاسی فضاؤں میں مستحکم ہو چکی ہے۔

لیکن ٹرمپ اور سابقہ امریکی صدور میں صرف ایک ہی فرق ہے اور وہ کہ ان کے منہ پر تالا نہیں ہے، اور کبھی کبھی وہ وہ باتيں صراحت سے کہہ دیتے ہیں جو نہیں کہنی چاہئیں؛ اور یوں وہ امریکی نظام کے بڑے بڑے راز فاش کر دیتے ہیں۔

سوال: کیا امریکہ نے ہمیشہ (خاص طور پر واشنگٹن سے غیر ہم آہنگ ممالک کے ساتھ) مذاکرات اور مذاکرات کی پیشکشوں  کو معاشی، فوجی اور سیاسی دباؤ کے تکمیلی عنصر کے طور پر استعمال نہیں کیا ہے؟

درحقیقت، امریکیوں کے رویے کا ان الفاظ سے بالاتر سطح پر (یعنی "بیان enunciation" کی سطح پر نہ کہ "کہے گئے الفاظ" utterance کی سطح پر) تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر بات چیت کی کامیابی کا معیار "صفر حاصل جمع" (Zero-sum game) کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔

اس منطق کے مطابق، ہر مذاکرہ یا تو مخالف فریق کے فکری نظام کے مکمل خاتمے پر یا اس کے تسلیم ہونے اور ہتھیار ڈالنے پر منتج ہونا چاہئے، یا پھر یہ مذاکرات "بذآت خود" مکمل طور بے کار اور باطل ہیں اور اس سے کوئی نتیجہ حاصل کرنا مقصود نہیں ہے، کیونکہ یہ مذاکرات فوجی کارروائی، مداخلت، نظام حکومت کی تبدیلی یا بغاوت کے لئے معاون یا آڑ کے طور پر استعمال ہونا چاہئے۔

ایران کے ایٹمی معاہدے پر منتج ہونے والے 'مذاکرات'

ایران کے ایٹمی معاہدے (JCPOA) کا تجربہ ایک واضح مثال ہے۔ اس معاہدے کے پر ٹرمپ اور ریپبلکن سیاستدانوں کی بنیادی تنقید یہ تھی کہ JCPOA میں اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کے تمام اجزاء، بشمول میزائل پروگرام، علاقائی اثر و رسوخ وغیرہ کو مکمل طور پر ختم کرنے کی شقیں کیوں نہیں ہیں!

دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری طرف ڈیموکریٹ گروپ ہرگز انکار نہیں کرتا تھا کہ اسٹرٹیجک سطح پر ان کا ریپبلکنز سے کوئی اختلاف نہیں ہے، اور وہ حتمی مقصد جو ڈیموکریٹ حاصل کرنا چاہتے تھے، وہی کچھ تھا جو ریپلکنز حاصل کرنا چاہتے تھے۔

یعنی ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان اسٹراٹیجک اختلاف نہیں تھا اور جو تاکتیکی (چال ڈھال اور روش کا) اختلاف یہ تھا کہ ڈیموکریٹس کہتے تھے کہ "JCPOA ایک 'ابتدائی قدم' ہے اور 'یہ قدم' ایران کی پالیسی میں فیصلہ سازی کی پرتوں میں داخل ہو کر بالآخر اسلامی جمہوریہ کو اس کے انقلابی بیانیے سے خالی کر دے گا"، جبکہ ریپبلکن گروپوں کا خیال تھا کہ اس معاہدے میں ایسی صلاحیت نہیں ہے۔

یقیناً جس طرح کہ امریکی پالیسیوں کو صرف ٹرمپ تک محدود کرنا درست نہیں ہے، امریکہ کی پالیسیوں کو ایران تک محدود کرنا بھی درست نہیں ہے؛ امریکہ نے مختلف ممالک کے ساتھ مذاکرات میں سفارتکارانہ بات چیت کو اسی انداز سے استعمال کیا ہے۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں محض نمونے کے طور پر پیش کی گئی ہیں:

گوئٹے مالا بغاوت سنہ 1954ع‍ (1954 Guatemalan coup d'état)

سنہ 1954 میں امریکہ نے گوئٹے مالا اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان زمینی تنازعات میں ثالثی کے لئے اقوام متحدہ میں سفارتی مذاکرات کا سلسلہ چلایا۔ اسی دوران سی آئی اے نے منتخب صدر جاکوبو آربینز (Jacobo Árbenz) کو گرانے کے لیے خفیہ آپریشن PBSUCCESS ترتیب دیا۔

آربینز کو ان زمینی اصلاحات کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا جو امریکی کمپنی یونائیٹڈ فروٹ کے مفادات کو متاثر کر رہی تھیں۔ امریکہ نے 'ظاہری سفارت کاری' اور 'مذاکرات کے ڈھونگ" کے ذریعے گوئٹے مالا کو بغاوت کی منصوبہ بندی سے بے خبر رکھا۔

نتیجہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا، 36 سالہ خانہ جنگی کا آغاز، اور دو لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی صورت میں برآمد ہؤا۔ امریکہ کے قومی آرکائیوز کی دستاویزات ظاہر بتاتی ہیں کہ مذاکرات محض سی آئی اے کی بغاوت چھپانے کے لئے تھے!

ویتنام جنگ

1960 کی دہائی میں، امریکہ نے ویتنام جنگ میں اضافے کو جواز فراہم کرنے کے لیے ظاہری امن مذاکرات کا استعمال کیا۔

سنہ 1964ع‍ میں، بحیرہ جنوبی چین کی شمال مغربی شاخ میں واقع ٹونکن خلیج (Gulf of Tonkin) کا واقعہ، جو بعد میں بڑی حد تک جعلی ثابت ہؤا، کانگریس کی قرارداد منظور کرانے اور شمالی ویتنام کے وسیع پیمانے پر بمباری شروع کرنے کی دستاویز کے طور پر استعمال کیا گیا۔

سنہ 1968ع‍ کے پیرس مذاکرات، جو بظاہر امن کے لئے تھے، نے امریکہ کو لاؤس اور کمبوڈیا میں خفیہ فوجی کارروائیوں کے لیے وقت خریدنے کا موقع فراہم کیا۔

بعد میں منظر پر آنے والی پینٹاگون کی دستاویزات، رچرڈ نکسن انتظامیہ کی اس فریب کاری کو ظاہر کرتی ہیں کہ انھوں نے جنگ کو طول دینے کے لئے سفارت کاری کو ایک فریب کے طور پر استعمال کیا، ایسی جنگ جس کے نتیجے میں 30 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

2003 کی عراق جنگ

جدید دور کی ایک نمایاں مثال 2003 میں عراق پر حملہ ہے۔ جارج بش انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے معائنے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں وسیع پیمانے پر مذاکرات کا اہتمام کیا، جبکہ اندرونی دستاویزات (جیسے ڈاؤننگ اسٹریٹ میموز) سے ثابت ہوتا ہے کہ حملے کا فیصلہ مذاکرات سے پہلے ہی کر لیا گیا تھا۔

عراق میں کیمیائی اور جوہری ہتھیاروں کے موجودگی کے دعوے، جو بعد میں جعلی ثابت ہوئے، حملے کے لئے سفارتی جواز کے طور پر استعمال کیے گئے۔ ان بظاہر مذاکرات نے دنیا کو امریکہ اور برطانیہ کی فوجی منصوبہ بندی سے بھٹکا دیا۔ نتیجہ 9 لاکھ 29 ہزار سے زیادہ افراد کے قتل عام اور خطے میں طویل مدتی عدم استحکام کی صورت میں برآمد ہؤا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: احسان احمدی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha