بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق،مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا ہے کہ قاہرہ جنگ بندی کے فوری بعد غزہ کی انتظامیہ کے لیے ایک عبوری کمیٹی تشکیل دینے کی حمایت کرتا ہے، تاہم یہ کمیٹی فلسطینیوں پر مشتمل ہوگی اور اس میں حماس شامل نہیں ہوگی۔
العربیہ و الحدث کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ مصر کی پالیسی غزہ میں فوری طور پر دشمنی روکنے، نسل کشی سے بچاؤ اور عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر مبنی ہے۔
عبدالعاطی کے مطابق ثالثی کرنے والے ممالک جنگ بندی کے بعد کے مرحلے کے لیے عبوری انتظامات پر غور کر رہے ہیں تاکہ بنیادی خدمات کی فراہمی اور خطے میں استحکام قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کے مستقبل کا فیصلہ صرف فلسطینی عوام کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مصر کا کردار معاون اور سہولت کار کا ہوگا، اور قاہرہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کے مثبت نکات سے فائدہ اٹھایا جائے تاکہ مغربی کنارے اور غزہ کو متحد کیا جا سکے اور امن کے امکانات بڑھ سکیں۔
مصری وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی ہرگز نہیں ہوگی۔ رفح کراسنگ مصر کی جانب سے انسانی امداد پہنچانے کے لیے کھلی رہے گی، تاہم اسے آبادی کی جبری نقل مکانی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر نے پیر کی رات ایک 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد تقریباً دو سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔ اس منصوبے میں غزہ کو غیر مسلح علاقہ قرار دینے، اسرائیلی فوج کے مرحلہ وار انخلا اور قیدیوں کے تبادلے کی شرائط شامل ہیں۔
اس تجویز کے مطابق اسرائیلی فوج کا انخلا اس وقت ممکن ہوگا جب حماس کے ہتھیاروں کے معاملے پر اسرائیل، ایک بین الاقوامی فورس، ضمانت دینے والے ممالک اور امریکہ کے درمیان معاہدہ طے پا جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ غزہ دوبارہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے۔
منصوبہ حماس کے حوالے کیا گیا ہے اور تنظیم نے کہا ہے کہ وہ اس پر تفصیلی غور کے بعد جواب دے گی۔ تاہم فلسطینی مزاحمتی گروہ بارہا واضح کر چکے ہیں کہ وہ اپنے اسلحہ چھوڑنے کے کسی بھی دباؤ کو قبول نہیں کریں گے۔
آپ کا تبصرہ