بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، چینی وزارت خارجہ نے امریکہ کی درخواست کے جواب میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ "چین بیرونی دباؤ کی وجہ سے وہ اپنی توانائی کی پالیسی پر نظرثانی نہیں کرے گا۔"
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، چین کے وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے "چین ہمیشہ اپنی قومی مفادات کی بنیاد پر اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرے گا۔ دھونس اور دباؤ بالکل لاحاصل ہے، چین اپنی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کا سختی سے دفاع کرے گا۔"
قبل ازیں، امریکی وزیر خزانہ "اسکاٹ بیسنٹ" (Scott Bessent) نے چینی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے دوران زور دے کر کہا تھا کہ "چینی روس سے تیل خریدنے کے اپنے حقِ خودمختاری کے بارے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا، "ہم ان کی خودمختاری میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، اسی لئے وہ 100 فیصد ٹیرف ادا کرنے کو تیار ہیں۔"
بسینٹ نے کہا کہ چینی مذاکرات کار بہت سخت ہیں، لیکن اس مزاحمت نے انہیں بات چیت کو جاری رکھنے سے نہیں روکاہے۔
انہوں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ معاہدے تک پہنچنے کی گنجائش موجود ہے۔"
تاہم، مشاورتی کمپنی "ٹینیو" (Teneo) کے سی ای او "گیبریل وائلڈو" نے ٹرمپ کے 100 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے وعدے پر عمل درآمد ہونے پر شک ظاہر کیا۔
انہوں نے خبردار کیا: "ایسے خطرات کو عملی جامہ پہنانے سے حالیہ پیشرفت ختم ہو سکتی ہے اور موسم خزاں میں ٹرمپ اور شی جن پنگ کے درمیان ممکنہ تجارتی معاہدے کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا۔"
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، امریکہ روس اور ایران سے تیل کی برآمدات کم کروانے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ توانائی ان ممالک کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔
امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اس طرح روسی اور ایرانی فوجی وسائل کو محدود کرنا چاہتی ہے!
مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق، گذشتہ تین سالوں میں چین اور ہندوستان روسی تیل کے سب سے بڑے خریدار بن گئے ہیں۔ چین کے برعکس، ہندوستان نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ اگر واشنگٹن پابندیاں عائد کرتا ہے تو وہ روس سے تیل درآمد کرنا بند کر دے گا جس کی وجہ سے مودی حکومت اور حزب اختلاف میں شدید لفظی تنازعات کا آغاز ہو گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ