بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || شیعہ علم و معرفت کی تعمیق میں امام ہادی علیہ السلام کا کردار سب سے زیادہ، ایک منظم فکری اور الہیاتی نظام کی تشکیل کی صورت میں نظر آتا ہے۔ [آپؑ کا دور امامت عباسی بادشاہوں کے دباؤ، شیعیان آل محمد(ص) سے محدود رابطوں اور، امت مسلمہ میں کلامی [و اعتقادی] اختلافات کے پھیلاؤ کا دور تھا۔ ایسی صورت حال میں امامت کی تعلیمات کی عقلیت پر مبنی تعریف و تشریح ایک تاریخی ضرورت بن گئی۔
اس پس منظر میں زیارت جامعہ کبیرہ امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) کی سب سے اہم علمی یادگار کے طور پر ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔
زیارت جامعۂ کبیرہ محض ایک عبادی متن نہیں بلکہ علم کلام اور نظریہ علم (Epistemology) کے میدان میں ایک گہری کاوش ہے جسے "دفترِ معرفتِ شیعہ" کہا جا سکتا ہے۔ اس متن میں اہل بیت (علیہم السلام) کا مقام توحید، نبوت اور ہدایت الہیہ کے ساتھ نسیت کی رو سے، اعتدال کے ساتھ بیان ہوا ہے، جس میں غُلُو (عقیدے میں زيادہ روی اور مبالغہ آرائی) اور تخفیف (اور مقام و منزلت گھٹانے) سے پرہیز کیا گیا ہے۔
زیارت جامعہ کبیرہ امام کو "حجت الٰہی"، "مرکز ہدایت" اور "فردی و اجتماعی زندگی کو معنی دینے والے مرجع" کے طور پر متعارف کراتی ہے۔ یہ متن شیعہ اعتقادی حدود کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ شیعہ شناخت و تشخص کو مخالف فکری تشکیلوں، اور تشریحوں کے مد مقابل، منظم کرتا ہے اور امامت کے بارے میں افراطی اور تفریطی (انتہاپسندانہ اور تخفیفی) نظریات کی جانچ پرکھ کا معیار فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اسے امامیہ الٰہیات کا ایک مختصر مگر جامع منشور قرار دیا جا سکتا ہے۔
امام ہادی (علیہ السلام) کے کام کی اہمیت اس میں ہے کہ آپؑ نے علمی متون کی تخلیق کے ذریعے "تشیع" کو "دورِ غیبت" میں داخل ہونے کے لئے تیار کیا۔ آپؑ کی فکر میں "دفترِ معرفتِ شیعہ" عقل، نقل اور روحانیت کے ربط و امتزاج پر قائم ہے، ایک ایسا ربط و امتزاج جس نے امامِ معصوم تک براہ راست رسائی نہ ہونے کی صورت میں، شیعہ شناخت و تشخص اور عقلیت کے تسلسل کو ممکن بنایا ہے۔
خلاصہ یہ کہ امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) شیعہ معرفتی (یا علمی) نظام (Epistemic system) کے بنیادی معماروں میں سے ہیں۔ آپؑ نے 'زیارت جامعہ کبیرہ' کے ذریعے 'امام شناسی' اور 'ولائی الہیات' کا ایک پائیدار ڈھانچہ فراہم کیا جو آج بھی شیعہ علم و معرفت کی فہم اور ادراک کے اہم ترین مصادر و مآخذ میں شمار ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ