2 ستمبر 2025 - 13:06
چین نے عالمی نظام میں امریکہ کی جگہ لے لی ہے، فنانشل ٹائمز

چین بیجنگ میں ایک عظیم الشان فوجی پریڈ کا انعقاد کرکے دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس نے نیو ورلڈ آرڈر کی سرپرستی میں امریکہ کی جگہ لے لی ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، انگریزی جریدے "فنانشل ٹائمز" نے ایک رپورٹ میں چین کے شہر تیانجن میں ہونے والے شنگھائی سربراہی اجلاس کا جائزہ لیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے: "چینی رہنما شی جن پنگ اس ہفتے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک عظیم الشان فوجی پریڈ کا انعقاد کرکے تاریخ کو دوبارہ لکھیں گے اور چین کو جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظام کے محافظ کے طور پر متعارف کرائیں گے۔ پریڈ، جس میں روس کے ولادیمیر پوتن، شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان اور ایران، میانمار اور پاکستان کے نمائندوں سمیت متعدد رہنما شرکت کریں گے، چینی صدر ہائپر سونک میزائلوں اور خود چلنے کاروں سمیت فوجی ہتھیاروں کی نقاب کشائی کریں گے۔"

چین نے عالمی نظام میں امریکہ کی جگہ لے لی ہے، فنانشل ٹائمز

امریکہ کے متبادل کے طور پر چین کی پوزیشن کو مضبوط کرنا

لیکن جب کہ یہ ہتھیار اور مغرب میں نفرت انگیز ریاستوں کے طور پر دیکھے جانے والے ممالک کی موجودگی [مغرب کی] توجہ اور تشویش کا باعث بنے گی، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ کا اصل مقصد زیادہ لطیف و ظریف ہے۔ ژی دوسری جنگ عظیم میں چین کے کردار اور اس کے بعد ہونے والے امن کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں، جب اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ایک نیا عالمی نظام تشکیل پایا۔ وہ اس سالگرہ کے موقع پر تائیوان پر چینی حکومت کے دعوؤں کو مزید تقویت دینے کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک میں امریکہ کے متبادل رہنما کے طور پر اپنے مقام کو مستحکم کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔"

شنگھائی سربراہی اجلاس میں کثیر قطبی دنیا کے بارے میں چین کا پیغام

شی نے ممالک پر زور دیا کہ وہ دوسری جنگ عظیم کے "صحیح" نقطہ نظر کو فروغ دیں اور پیر کو تیانجن میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس میں کثیرجہتی نظام کی حمایت کریں، جس میں پوتن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سمیت رہنماؤں کی میزبانی کی جا رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں سے کثیر جہتی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے، بیجنگ سالگرہ کی تقریبات کو ـ بین الاقوامی نظم کو از سر نو متعین کرنے اور کثیر قطبی دنیا کے آئیڈیل کو آگے بڑھانے کے لئے ـ مناسب موقع سمجھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یوم فتح کی سالگرہ اس بیانیے کے لئے ایک اوزار کی حیثیت رکھتی ہے۔

چائنا میڈیا پروجیکٹ کے ڈائریکٹر اور چینی پروپیگنڈے کے ماہر ڈیوڈ بینڈرسکی کہتے ہیں، "چین کے لئے اس لمحے سے فائدہ اٹھانے اور یہ کہنے کے لئے یہ ایک اچھا عالمی تناظر ہے کہ 'ہم یہاں ہیں، کثیرجہتی عالمی نظام کے بانی - اب ہم کثیرجہتی نظام کو زیادہ وسیع البنیاد سمت میں لے جا رہے ہیں۔'

دوسری جنگ عظیم میں چین اور روس کے اہم کردار کو عیاں کرنا

بیجنگ کے لئے، ایک اہم پہلا قدم دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی فتح میں چین کے کردار کے بارے میں مروجہ بیانیے کو دوبارہ مرتب کرنا اور امریکہ کے کردار کو کم کرنا ہے۔ چین کہتا ہے کہ اس نے "جاپانی جارحیت کے خلاف مزاحمتی جنگ" 1931 سے شروع کی تھی، جو کہ امریکہ کے جنگ میں داخل ہونے سے ایک دہائی پہلے کا واقعہ تھا۔

مئی میں شی کے دورہ ماسکو سے پہلے، جہاں انھوں نے پوٹن کے ساتھ یومِ فتح کی پریڈ دیکھی، وہ پوٹن کو اپنا "پرانا دوست" کہتے ہیں، شی نے لکھا: "چین اور سوویت یونین بالترتیب ایشیا اور یورپ میں اس جنگ کے اہم میدان تھے۔ وہ جاپانی عسکریت پسندی اور جرمن نازی ازم کے خلاف مزاحمت کے اہم ستون تھے، اور عالمی جارحانہ جنگوں کے خلاف دفاعی جنگوں میں مدد بہم پہنچائی۔"

بین الاقوامی نظام تبدیل کرنے کی بیجنگ کی کوششیں

امریکی قوانین پر مبنی بین الاقوامی ترتیب کو تبدیل کرنے کی بیجنگ کی کوششوں کا ایک حصہ تائیوان پر اپنے دعوے کو مضبوط کرنا ہے۔ 2015 میں دوسری جنگ عظیم کی سالگرہ کے موقع پر شی کی تقریر میں تائیوان کا ذکر نہیں تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈے نے اس سال تائیوان میں KMT حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کی وجہ سے چین کی جنگ میں قوم پرست Kuomintang (KMT) حکومت کے کردار کو تسلیم کیا، جہاں قوم پرست 1949 کی خانہ جنگی ہارنے کے بعد بھاگ کر چلے گئے تھے۔ قوم پرستوں نے جاپان کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا، اور ان کی حکومت نے جنگ کے بعد ہونے والے مذاکرات کی قیادت کی۔

لیکن امسال کمیونسٹ پارٹی جاپان کے خلاف مزاحمت کی جنگ کے اہم ستون کے طور پر اپنے بیانیے پر زیادہ زور دے رہی ہے۔ 2015 کے بعد سے، چین نے تائیوان کے خلاف زیادہ جارحانہ انداز اپنایا ہے اور بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کی ہیں، ـ خاص طور پر گذشتہ سال ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کے لائی چنگ-ٹی کے صدر منتخب ہونے کے بعد، ـ جنہیں بیجنگ ایک خطرناک علیحدگی پسند سمجھتا ہے۔

تامکانگ یونیورسٹی میں سنٹر فار کراس سٹریٹ ریلیشنز کے ڈائریکٹر چانگ وو-وی کہتے ہیں: "بیجنگ نے تائیوان پر اپنے دعوؤں کو جنگ کے دوران اتحادیوں کے دو معاہدوں ـ یعنی قاہرہ اور پوٹسڈیم ڈیکلریشنز ـ سے سے جوڑ کر گہری جڑوں والی حقیقت قرار دیا تھا جن میں جنگ کے بعد جاپان سے تقاضآ کیا گیا تھا کہ وہ تائیوان، چین کو واپس کر دے۔ اس سال، پہلی بار، اس نے ان معاہدوں کو اس وقت کی KMT حکومت کی جانب سے 1971 میں تائیوان کو اقوام متحدہ کی جانب سے 'غیر تسلیم شدہ' عنوان، سے جوڑا ہے تاکہ جزیرے پر بیجنگ کے خودمختاری کے دعوے کی حمایت کی جا سکے۔"

کینن گائو اور مارگریٹ پیئرسن بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے لئے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، "چین کے خودمختاری کے دعوے کا جنگ کے بعد کی عالمی حکمرانی کے مرکز کے طور پر اقوام متحدہ کے لئے اس کی حمایت سے گہرا تعلق ہے۔"

بیجنگ اور مغرب کے درمیان بنیادی اختلافات

ان بیانیوں کا مغرب میں مقابلہ کیا جاتا ہے۔ امریکہ نے سان فرانسسکو کے 1951 کے معاہدے کا حوالہ دیا – جس نے باضابطہ طور پر جاپان کے ساتھ جنگ کا خاتمہ کیا اور اس سوال کو کھلا چھوڑ دیا کہ تائیوان کا کنٹرول کون لے گا – ایک ایسا معاہدہ جسے بیجنگ مسترد کرتا ہے۔ جبکہ  چین کے مورخ رانا مِٹز کہتے ہیں: "ماہرین چین کی بے پناہ قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔" ان کا کہنا ہے: "قبول کرنا ہوگا کہ بالآخر 'بحرالکاہل کی جنگ' نے امریکہ اور جاپان کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا،"۔ سوویت یونین جاپان کے ساتھ اپنے عدم جارحیت کے معاہدے کی وجہ سے زیادہ تر میدان سے باہر کھڑا تھا۔

مغرب میں بہت سے لوگوں کے لئے، منگل کی یومِ فتح کی پریڈ خود - اس وجہ سے بھی کہ روس جو یوکرین میں ایک مکمل جنگ میں الجھا ہؤا ہے، اس پریڈ میں شریک ہے ـ اور پوٹن جیسے رہنماؤں کی ـ استحکام اور کثیرجہتی دنیا کے حامی کے طور پر ـ موجودگی،  بیجنگ کے پیغام کو کمزور کر دے گی۔ یوریشیا کنسلٹنگ گروپ میں چین ڈیسک کی ڈائریکٹر، امانڈا ژاؤ (Amanda Xiao)) کہتی ہیں، "ٹرمپ کی افراتفری کو بین الاقوامی امیج بڑھانے کے لئے استعمال کرنے کی، بیجنگ کی کوششوں لامحدود نہیں ہیں، اور اس معاملے میں، فوجی طاقت اور ماسکو کے ساتھ قریبی تعلقات اور مشترکہ صف بندی، بیانیے کے اس پیغام کو کمزور کر دے گی۔

یوم فتح کی پریڈ کا بنیادی ہدف اندرونی رائے عامہ اور عالمی جنوبی شرکاء ہیں

تاہم، [مغربی تجزیہ کاروں کا تصور یہ ہے کہ] جنگی بیانیے کو تبدیل کرنے کے لئے پریڈ اور شی کی کوششیں بنیادی طور پر گھریلو سامعین اور عالمی جنوبی شراکت داروں کے لئے بنائی گئی ہیں، نہ کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے۔ بینڈرسکی کہتے ہیں، "[کمیونسٹ] پارٹی خاص طور پر خاص طور پر پولٹ بیورو کے اندر کی سوچ کو دکھانے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے کہ شی جن پنگ اور موجودہ قیادت مضبوط اور عالمی سطح پر قابل احترام ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha