بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || غزہ پر جنگ کے بعد صہیونی ریاست سے عالمی نفرت میں، پہلے سے کہیں زیادہ، اضافہ ہؤا ہے۔ اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ـ خاص طور پر مغرب میں ـ مختلف سماجی پرتوں میں، انسانی اخلاقیات ابھی تک زندہ اور مؤثر ہیں۔ مغربی معاشرے ـ جو برسوں سے اپنی حکومتوں کی غیر اخلاقی اور غیر انسانی پالیسیوں اور تشہیری مہمات کی بمباری کا شکار ہیں، ـ آج انسانی فطرت پر بھروسہ کرتے ہوئے ان رجحانات سے تنگ ہیں اور اکتا گئے ہیں۔
اسی بنا پر، مغربی اقوام انسانیت کے خلاف جرائم اور غزہ کے لوگوں کی نسل کشی جیسے مسائل پر میدان میں اتریں اور ـ طلبہ اور نوجوانوں سے لے کر مختلف کاروباری طبقوں اور سطحوں تک ـ انسانی اور احتجاجی ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہوئی؛ یہاں تک کہ اسٹیڈیمز اور کھیلوں کے میدانوں میں بھی ـ جو عموماً تفریحی مقامات ہوتے ہیں ـ یہ احتجاجی سلسلہ نمایاں طور پر نظر آیا۔
حکمرانوں کی غیر اخلاقی پالیسیوں کے برعکس مغرب میں اخلاقیات کا بڑا مظاہرہ
اس دوران صہیونی ریاست، مغرب کے غیر انسانی رویے اور حکومتی پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 7 اکتوبر کے واقعات کے بعد غزہ پر صہیونیوں کی مسلط کردہ جنگ نے عالمی رائے عامہ کے سامنے اس حقیقت کو عیاں کر دیا۔ ایک ایسی ریاست جو قوموں کے خلاف مغرب کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے اور مغربی حکومتوں کی سرکاری حمایت حاصل کرتی ہے، اب وہ ان ممالک کے عوام کے ذہنوں اور ضمیروں میں اپنی تاریک اور نفرت انگیز تصویر قائم کر چکی ہے۔
اسلامی انقلاب کے رہبر معظم نے ان حالات کو عالمی رائے عامہ کے ساتھ صحیح رابطے اور اس کی صحیح رہنمائی کے لئے امید کی کرن قرار دیا ہے۔ قوموں بالخصوص دنیا بھر کے نوجوانوں کے بارے میں آپ نظریہ ہمیشہ مثبت، انسانی اور امید افزا رہا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے مغربی نوجوانوں اور طلبہ کے نام خطوط بھی ارسال کیے ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ قابل نفرت شخص صہیونی ریاست کا سربراہ ہے
انقلاب اسلامی کے رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے ایرانی قوم سے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"غزہ کے اس سانحے میں جو آج ہمارے خطے کی تاریخ کے اہم ترین سانحات میں سے ایک ہے، صہیونی ریاست کی شدید رسوائی اور بدنامی ہوئی اور اس ذلت و رسوائی میں اس غاصب اور جابر ریاست کے ساتھ امریکہ بھی کھڑا ہؤا اور اسے بھی رسوا اور بدنام ہونا، اور شدید نقصان اٹھانا، پڑا، دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ اگر امریکہ اس جارح اور غاصب ریاست کے ساتھ نہ کھڑا ہوتا تو صہیونی ریاست اتنے المیے رقم کرنے کے قابل نہ ہوتی۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ منفور شخص صہیونی ریاست کا سربراہ ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ نفرت انگیز تنظیم اور حکمران ٹولہ صہیونی ریاست ہے اور اس سلسلے میں امریکہ بھی اس کے ساتھ ہے اور اس کی منفوریت بھی امریکہ تک پھیل چکی ہے۔"
آپ نے صہیونی ریاست کے حامیوں تک اس عالمی منفوریت کی سرایت کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا:
"دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کی مداخلتیں اس ملک کو روز بروز زیادہ سے زیادہ تنہا کر رہی ہیں۔ امریکہ نے جہاں بھی مداخلت کی ہے، اس کا نتیجہ یا تو جنگ کی آگ بھڑکنے، نسل کشی، یا پھر تباہی اور دربدری کی صورت میں نکلا ہے۔ امریکہ نے یوکرین میں تباہ کن جنگ شروع کی اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا... صہیونی ریاست کے لبنان پر حملے، شام پر جارحیت، مغربی کنارے اور غزہ میں جرائم اور غاصبانہ حملے امریکہ کی حمایت میں، جاری ہیں۔" اور امریکہ کو اس حوالے سے صحیح معنوں میں نقصان اٹھانا پڑا ہے اور قابل نفرت بن گیا ہے۔"
عالمی نفرت کے شماریاتی ثبوت
پیو انسٹی ٹیوٹ، گیلپ اور دیگر تحقیقی مراکز کی رپورٹوں سمیت قابل اعتماد اعداد و شمار اور سروے رپورٹیں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف عالمی نفرت میں اضافے کے رجحان کی تصدیق کرتی ہیں۔ اس اعداد و شمار کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ غزہ میں ہونے والے جرائم نے وسیع پیمانے پر انسانی بحران پیدا کرنے کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ اور صہیونی ریاست کی قانونی حیثیت اور نرم طاقت کی بنیادوں کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے۔
یہاں تک کہ ان پیش رفتوں نے مغربی حکومتوں اور ان کے عوام کے درمیان گہرے اختلافات کو جنم دیا ہے۔ صہیونی ریاست کے سب سے بڑے حامی کے طور پر امریکہ میں غزہ کی جنگ نے رائے عامہ کو وسیع پیمانے پر بدل دیا ہے۔ اپریل 2025 میں پیو انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ 53% امریکیوں کا نظریہ اسرائیل کے بارے میں منفی ہے؛ یہ اعداد و شمار جو مارچ 2022 کے مقابلے میں 11% اضافے کی نمائندگی کرتا ہے۔ "انتہائی ناموافق" نقطہ نظر رکھنے والوں کا حصہ بھی 10% سے بڑھ کر 19% ہو گیا ہے۔ رویے میں یہ تبدیلی، خاص طور پر ڈیموکریٹس میں 69 فیصد، قابض ریاست کے جرائم کے بارے میں امریکہ کی نوجوان نسل کی بیداری کی عکاسی کرتی ہے۔
نیتن یاہو؛ دنیا کا سب سے زیادہ منفور شخص
"بنیامین نیتن یاہو" واقعی ـ قوموں اور یہاں تک کہ بہت سے حکمرانوں کے نزدیک ـ دنیا کی سب سے زیادہ قابل نفرت سیاسی شخصیات میں سے ایک بن گیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، نیتن یاہو کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا، اور متعدد ممالک کے نمائندوں نے جنرل اسمبلی کے فلور کو احتجاجاً ترک کر دیا۔ اسی دوران آسٹریلیا، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے اقدامات کئے؛ جو نیتن یاہو کی حکومت پر بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کی واضح علامت ہے۔
اسی تناظر میں اے بی سی نیوز نے بھی غزہ میں بچوں کے قتل عام اور غذائی قلت کی تصاویر کی اشاعت کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان تصاویر نے عالمی رائے عامہ میں نیتن یاہو کو اس تباہی کے براہ راست ذمہ دار کے طور پر متعارف کرایا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی ساکھ کو بری طرح کمزور کیا ہے۔
اگرچہ مرکزی دھارے کا مغربی میڈیا قدامت پسندانہ لہجے کے ساتھ اس عالمی نفرت کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن رائٹرز، بی بی سی، ایسوسی ایٹڈ پریس اور اے بی سی نیوز جیسے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس اور تجزیے صہیونی ریاست اور خود نیتن یاہو کی تنہائی کی گہرائی کو واضح طور پر عیاں کر رہے ہیں۔
آج جو کچھ طلبہ کے احتجاج، سماجی تحریکوں، ثقافتی رد عمل اور یہاں تک کہ مغرب میں کھیلوں کے ماحول کی صورت میں نظر آرہا ہے، وہ کوئی عارضی اور جذباتی ردعمل نہیں ہے؛ بلکہ یہ عالمی رائے عامہ میں ایک گہری تبدیلی کی علامت ہے؛ ایک ایسی تبدیلی جس نے صہیونی ریاست اور اس کے اہم حامی امریکہ کے اخلاقی جواز اور نرم طاقت کو بری طرح برباد کر دیا ہے۔ اس رجحان کا تسلسل غاصب ریاست کے حامی محاذ کو نقصان پہنچانے کے لئے عالمی نرم طاقت کی قاعدے کو تبدیل کر سکتا ہے اور یہ امریکہ اور صہیونی ریاست کی تاریخی اور ناقابل تلافی تنہائی کا باعث بن سکتا ہے؛ ایسی تنہائی کہ اس زمانے میں حکومتوں کے راستے سے نہیں بلکہ قوموں کے دلوں سے بن کر سامنے آ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: امیر حمزہ نژاد
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ