بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || غزہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی قائم ہونے کے بعد اہم موضوع یہ ہے کہ دو سالہ جنگ صہیونیوں کے لئے کیا لے کر آئی۔ امریکی اخبار نیویورک ٹائمز کے ایک سینئر یہودی رپورٹر، "راجر کوہن"، ـ جو بلا روک ٹوک مقبوضہ فلسطین کے سفر پر جاتے ہیں ـ نے "اسرائیل اپنے آپ کے خلاف نبرد آزما" عنوان سے ایک رپورٹ میں اس ریاست کے آبادکار معاشرے کی حالت کا جائزہ لیا ہے۔
رہائشیوں سے خالی کیبوتز (آبادکاروں کی بستیاں)
راجر کوہن پناہ گزین صہیونیوں کی واپسی کے بارے میں لکھتے ہیں: "کیبوتز (Kibbutz صہیونی نوآبادیوں) میں 'وقت' تھم گیا ہے۔ غزہ کی سرحد کے قریب واقع ایک کیبوتز کے 384 رہائشیوں میں سے مٹھی بھر لوگ واپس لوٹے ہیں۔ پورا اسرائیل اب بھی خوف میں گھرا ہوا ہے۔ وہی خوف جس سے بچاؤ کے لئے یہودی ریاست بنائی گئی تھی۔ اسرائیلی کہتے ہیں کہ ان کی ہر بات چیت سات اکتوبر کے واقعے پر ہی ختم ہوتی ہے۔ کیبوتز کے اہلکار کے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جلی ہوئی اور تباہ شدہ عمارتوں کو گرادے یا انہیں یادگار کے طور پر محفوظ رکھے۔"
آبادکاروں کی الٹی نقل مکانی میں 50 فیصد اضافہ
نیویارک ٹائمز نے سات اکتوبر کی کارروائی کو اس ریاست کے 77 سالہ تاریخ میں "سب سے بڑی شکست" قرار دیا ہے اور لکھا ہے: "اسرائیلی خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تھکے ہوئے پاتے ہیں۔ نہ صرف 295,000 ریزرو فوجیوں کو بار بار طلب کیا گیا ہے، بلکہ تقریباً 83,000 اسرائیلی سال 2024 میں یہ سرزمین چھوڑ کر نقل مکانی کر چکے ہیں جو پچھلے سال کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔"
واضح رہے کہ یہودی اخبار نیویارک ٹائمز کے یہ اعداد و شمار صہیونی سے ہیں، ورنہ تو نقل مکانی کرنے والے آبادکاروں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی اور صرف ایران کے خلاف صہیونی جارحیت کے بعد ایران نے جوابی کاروائی شروع کر دی تو مذکورہ تعداد سے کئی گنا آبادکار صرف ان ہی بارہ دنوں میں مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر یورپ بھاگ گئے ہیں جو واپسی سے گریز کر رہے ہیں۔
فوجی کے افسران کی خودکشیاں
مقبوضہ علاقوں سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق، صرف دو مہینوں میں اسرائیلی فوج کے سات افسران نے خودکشی کی ہے۔
نیتن یاہو پر عدم اعتماد
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے اپنے مفادات کو عوام کے مفادات پر ترجیح دی ہے اور سات اکتوبر کی تباہی کی تحقیقاتی کمیٹی کو ملتوی کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے؛ اس نے اسرائیلیوں کو تقسیم کیا ہے اور دنیا کو غضبناک کر دیا ہے۔
ایک ریٹائرڈ اسرائیلی فوجی "گادی شمینی" اس سلسلے میں کہتا ہے: "بی بی (نیتن یاہو) نے نہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ بلکہ ہمارے ساتھ بھی خوفناک سلوک روا رکھا ہے۔ اس نے ہماری بنیادی اقدار، زندگی کی تکریم اور جنگ میں اخلاقیات کو نظرانداز کیا ہے۔"
کوہن کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل میں سینکڑوں ہزاروں آبادکار مختلف مواقع پر سڑکوں پر نکل آتے رہے ہیں تاکہ حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ ان کے دکھوں کو تسلیم کرے اور قیدیوں کی رہائی کو ترجیح دے۔ بہت سے لوگ تقریباً تین سال سے نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اولاً، عدالت عظمیٰ کو کمزور کرنے اور لامحدود اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کے خلاف۔ ثانیاً، قیدیوں کے معاملے میں اس کی کی عدم توجہ کے خلاف۔
ایک اسرائیلی آبادکار نے نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار سے کہا: "ہم بیزار ہیں۔ ہم مایوس ہیں۔ ہم نیتن یاہو کی حکومت کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس نے محض اپنی سیاسی بقا کے لئے جنگ کو طول دیا ہے۔ میرا بیٹا قید ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا ملک دوسروں پر حکومت کرے۔ میں ایسے ملک میں نہیں رہنا چاہتا جس کی سرحدیں تسلیم شدہ نہ ہوں۔ میں ایک معمول کے ملک میں رہنا چاہتا ہوں۔"
تشدد میں اضافہ اور فتح کا احساس نہ ہونا
اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے شہروں میں تشدد اور ہاتھاپائیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، "1956ء میں بننے والے تل ابیب کے "گوردون بیچ" ایک ساحل کے اہلکاروں نے اپنے خط میں حاضرین سے درخواست کی ہے وہ "کسی بھی قسم کی جسمانی یا زبانی جارحیت سے پرہیز کریں۔"
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے: "ہمسایہ عرب ممالک، نیتن یاہو کی حزب اللہ پر حملہ آور ہونے اور ایران کے جوہری پروگرام کو نقصان پہنچانے کے بعد، کہتے ہیں کہ "گویا اسرائیل ایک سلطنت بنے کی کوشش کر رہا ہے"، لیکن خود اسرائیل میں، خطے میں فوجی برتری کے حوالے سے فتح کا کوئی احساس نہیں پایا جاتا۔"
ٹرمپ کے منصوبے کا ایک حصہ یہ ہے کہ نیتن یاہو کو حماس پر فتح کا دعویٰ کرنے کی اجازت دی جائے۔ لیکن فلسطینی عوام کو پس پشت ڈال کر انہیں غیر ملکی افواج کے قیمومت میں دینے کا ٹرمپ کا نظریہ ایک ذلت آمیز منصوبہ ہے جس کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان نہیں ہے۔
اسرائیل، دنیا میں تنہا ہو گیا
اسرائیل کی تنہائی اور اس ریاست سے عالمی نفرت کا معاملہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ٹرمپ نے تقریباً ایک مہینہ پہلے ایک انٹرویو میں کہا: "شاید اسرائیل جنگ جیت جائے، لیکن وہ دنیا کی عوامی رائے ہار جائے گا۔"
نیویارک ٹائمز لکھتا ہے: "اسرائیل تنہا ہو چکا ہے، جیسا کہ پچھلے مہینے اس وقت آشکار ہؤا جب نیتن یاہو کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تقریباً خالی ہال میں اپنی مبینہ فوجی کامیابیاں بیان کرنا پڑیں۔ دنیا بھر کے نمائندوں نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔"
امریکہ میں سابق صہیونی ریاست کے سفیر "مائیکل اورن"، اسرائیل کی تنہائی کے بارے میں کہتا ہے: "ہولوکاسٹ کے بعد، یہودیوں سے نفرت، ناگوار تھی۔ لیکن وہ دور ختم ہو گیا ہے اور دنیا اپنی اصل شکل میں واپس آ گئی ہے۔"
وہ اہداف جو اسرائیل جنگ سے چاہتا تھا اور حاصل نہ کر سکا
متعدد رپورٹس، خاص طور پر نیتن یاہو کے ان واضح بیانات کی بنیاد پر جنہیں 'ٹائمز آف اسرائیل' نے دستاویزی شکل دی ہے، غزہ میں اس ریاست کے وزیر اعظم کے چند بنیادی مقاصد تھے:
1۔ یرغمالوں کی رہائی
2۔ حماس کا مکمل خاتمہ
3۔ پورے غزہ پر قبضہ
4۔ فلسطینی عوام کی جبری نقل مکانی
لیکن ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کرنے کے باوجود، اسرائیل اپنے کسی بھی ہدف میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسرائیل اپنے تمام جدید ترین سیکیورٹی اور انٹلیجنس سسٹمز کے باوجود، غزہ کے انتہائی محدود جغرافیے میں اپنے قیدیوں کو نہیں ڈھونڈ سکا۔ یہ جنگ کا سب سے بنیادی ہدف تھا جس میں وہ ناکام رہا اور آخرکار اسے [حماس کے ساتھ مذاکرات اور] ایک معاہدے کے ذریعے قیدیوں رہائی کے لئے بات چیت کرنا پڑی [جس کا خاتمہ اس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک تھا] اور دیگر اہداف بھی حاصل نہیں ہو سکے۔ اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ اس ریاست کو حماس سے مذاکرات کرنا پڑے اور اسے رعایتیں دینا پڑیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ