اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی انقلاب کے بانی امام خینی کے پوتے حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے پہلے امام خمینیؒ عالمی ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی عظیم شخصیت کی پہچان اس کے افکار سے ہوتی ہے، یعنی اس کے افکار نے کتنا متاثر کیا ان کے مطابق اس معیار پر سب سے عظیم ہستی رسولِ اکرم ص ہیں، جن کا نام چودہ سو برس بعد بھی تہذیب کی پہچان ہے، اور موجودہ دور میں امام خمینیؒ بلاشبہ عظیم ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ابھی امام خمینیؒ کے دور سے پوری طرح فاصلے پر نہیں آئے، اس لیے ان کی عظمت کا صحیح اندازہ شاید آئندہ صدیوں میں ہو سکے۔ جیسے واقعۂ کربلا کے فوراً بعد ظاہری طور پر بنی امیہ کو فاتح سمجھا گیا، مگر تاریخ نے اصل حقیقت کو آشکار کیا، اسی طرح انقلابِ اسلامی کے اثرات کو بھی وقت کے ساتھ بہتر طور پر سمجھا جائے گا۔
سید حسن خمینی نے انقلابِ اسلامی کے عالمی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس انقلاب نے دنیا بھر میں دین کو دوبارہ سماج کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی فضا مارکسزم کے زیرِ اثر تھی اور دین کو محض ذاتی معاملہ سمجھا جاتا تھا، امام خمینیؒ نے قم سے اٹھ کر دین کو اجتماعی اور سیاسی زندگی میں مؤثر کردار دیا۔ اس کا اثر نہ صرف شیعہ دنیا میں بلکہ اہلِ سنت، مسیحی مفکرین اور آزادی کے متلاشی عوام میں بھی دیکھا گیا۔
انہوں نے لبنان، فلسطین اور افریقہ کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ کی فکر نے دینی بیداری کو نئی روح بخشی، جس کے نتیجے میں مزاحمتی تحریکیں وجود میں آئیں اور دین نے ایک بار پھر عوامی زندگی میں قوت حاصل کی۔
سید حسن خمینی کے مطابق عالمی امام خمینیؒ ایوارڈ محض ایک شخصیت کا ایوارڈ نہیں بلکہ ایک مکتبِ فکر کا ایوارڈ ہے، ایسا مکتب جو خدا کو سماج میں تلاش کرتا ہے اور جسے امام خمینیؒ نے مثبت عرفان کے نام سے تعبیر کیا۔ انہوں نے کہا کہ امامؒ نے قوم میں دو بنیادی چیزیں پیدا کیں: خدا پر یقین اور خود اعتمادی۔ امامؒ نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ کسی سے کم نہیں اور اپنے وسائل اور صلاحیتوں پر بھروسا کریں۔
انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ نے اپنی قوم کے ساتھ ایک گہرا روحانی اور جذباتی رشتہ قائم کیا، اسی لیے وہ عوام کے کندھوں پر ملک میں داخل ہوئے اور اسی قوم کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئے۔
اختتام پر سید حسن خمینی نے موجودہ قیادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر رہبرِ انقلاب کی مسلسل توجہ، ہمّت اور یاددہانی نہ ہوتی تو شاید کچھ لوگ امام خمینیؒ کا نام پس منظر میں دھکیلنا چاہتے تھے، مگر ان کی قیادت نے اس راستے کو مزید مضبوط اور نمایاں بنایا۔ انہوں نے رہبرِ انقلاب کی سلامتی اور توفیق کے لیے دعا بھی کی۔
آپ کا تبصرہ