بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || لیکن طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں ہونے والی شکستوں کا معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد، طوفان الاقصیٰ کی جنگ صہیونی ریاست کو اہم نتائج اور عواقب (Consequences) کی مختلف جہتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اہم ترین جہتوں میں سے ایک سیاسی اور سماجی تصویر (ساکھ) کا زوال اور دنیا میں صہیونی تحریک کے میڈیا پروجیکٹ اور اس کے روایتی بیانیے کی ناکامی ہے۔
فلسطینی علاقوں میں صہیونی ریاست کے غیر قانونی قیام کے بعد سے، مغرب کی صہیونی تحریک، جس کے پاس اقتصادی پیداواری وسائل کے ایک بڑے حصے کے ساتھ ساتھ بہت سے ذرائع ابلاغ کی ملکیت تھی، نے فلسطینی سرزمین پر قبضے کو قانونی حیثیت دینے کے لئے عالمی رائے عامہ کو برین واش کرنے کے لئے ایک وسیع میڈیا پراجیکٹ شروع کیا اور عوامی ذہنوں سے فلسطین کے مسئلے کو مکمل طور پر مٹا دیا۔
تاریخ، فلموں، داستانوں اور سنیماٹوگرافک پروڈکشنز کی غلط بیانی اور جعل سازی سمیت مختلف حلقوں اور دائروں میں آگے بڑھایا جانے والا یہ منصوبہ 7 اکتوبر تک پوری دنیا میں جاری اور عالمی رائے عامہ پر طاری رہا اور اس مسئلے کو مغربی ممالک میں رائے عامہ کے ایک حصے نے بھی قبول کیا۔ لیکن غزہ جنگ کے آغاز اور غزہ میں صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی وحشیانہ نسل کشی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے خلاف فلسطینی مقاومت کی شدید مزاحمت نے صہیونی ریاست کی جھوٹی بنیادوں پر ایک ٹھوس ہتھوڑے کی طرح ضرب لگائی اور دنیا کو حقیقت سے روشناس کرایا، تاکہ فلسطین دنیا کا مرکزی مسئلہ اور انسانوں کے لئے اس کی حمایت اہم ترین مسئلہ بن سکے۔ صہیونی ریاست سے نفرت اور اس کے ساتھ دشمنی انسانیت کے ادب اور انسانی حقوق کے دفاع کا ایک اہم جز بن گئی ہے۔
دوسری طرف اسی دوران دنیا بھر میں صہیونیوں کی سلامتی ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔ عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل کے خلاف عالمی رائے عامہ کے غم و غصے کی وجہ سے بہت سے صہیونی اب مختلف ممالک کا سفر کرنے یا ـ خواہ ثقافتی خواہ کھیل کود کے شعبے میں ـ بین الاقوامی تقریبات میں شرکت کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ بہت سے صہیونیوں نے اعلان کیا ہے کہ جب وہ بیرونی ممالک میں ہوتے ہیں تو وہ جعلی شناخت اور غلط معلومات کا استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کے اردگرد رہنے والے ان کی اصلی شناخت نہ جان سکیں، کیونکہ لوگ دنیا میں کہیں بھی صہیونیوں کا استقبال نہیں کرتے۔
بہت سے صہیونی ـ جو اس ریاست کی فوج میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں، مختلف ممالک میں پہنچتے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے تعاقب کا نشانہ بنتے ہیں اور جلد ہی اس ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
لیکن یہ واقعہ اسرائیل کے لئے مزید خوفناک ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ دنیا اب ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رہی ہے، ایسا واقعہ جسے صہیونی ریاست کے رہنما اب روکنے کے قابل نہیں ہیں۔ آج عالمی رائے عامہ اور مختلف ممالک کے ثقافتی اور سیاسی حلقوں میں فلسطین کی حمایت کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا سب کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے۔ صہیونی ریاست کے سرغنے اور ان کے بڑے حامی جو کسی وقت جھوٹے منصوبوں اور ذرائع ابلاغ کی جھوٹی تشہیری مہمات کا سہارا لے کر اپنے لئے ثقافتی اور سماجی احترام اور پہچان پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے، وہی جنہوں نے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لئے تاریخ کی کتابوں تک پہنچا دیا تھا، اب اس ہیبت ناک حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں: فلسطین، جو ان کی 100 سالہ سازشوں کے برعکس، ایک جیتا جاگتا ملک ہے!
عالمی سطح پر صہیونی ریاست اور اس کے حامیوں (امریکہ اور یورپ) کی بالادستی کو چیلنج کیا گیا۔ ابراہیم معاہدے، جو فلسطین کو ختم کرنے کے لئے ڈیزائن کئے گئے تھے، تعطل کا شکار ہو گئے، اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا عمل ملتوی ہو گیا۔
نیویارک ٹائمز نے لکھا: "طوفان الاقصیٰ نے فلسطینی کاز کو زندہ کیا اور اس کو تنہا کرنے والی مغربی-صہیونی حکمت عملی کو توڑ دیا۔" حتیٰ کہ ریاست کے اتحادی، ـ بشمول امریکہ، ـ اپنی غیر مشروط حمایت جاری رکھنے سے عاجز ہوئے۔ 7 اکتوبر اور غزہ کی جنگ نے خطے اور دنیا میں مضبوط سیاسی قدم جمانے کے اسرائیلی منصوبے کو بھی روکا اور ناکام بنایا۔ صہیونی ریاست کو ـ جس نے ابراہیمی معاہدے کے تحت دنیا بھر کے اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی اور ٹرمپ کی مدد سے، اور [متحدہ عرب امارات سمیت] کئی عرب ممالک کی موجودگی میں اس کا آغاز کیا تھا، ـ آج نہ صرف آگے بڑھنے میں چیلنجز کا سامنا ہے بلکہ عرب ممالک کے [مبہم] موقف اور عرب دنیا کی رائے عامہ اور خاص طور پر سعودی عرب کی اس ریاست کے ساتھ معمول پر آنے میں ہچکچاہٹ، نے صیہونیوں کو اپنی علاقائی حکمت عملیاں آگے بڑھانے میں مفلوج کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ