بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || غزہ کی جنگ کے مسئلے اور مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی ریاست کے بے شمار جرائم کے ساتھ ساتھ، اس خطے پر فوجی قبضے میں ان کی ناکامی اور غزہ کی دلدل سے صہیونیوں کو نکالنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کے علاوہ، نیتن یاہو کابینہ کے انتہا پسند دھڑوں کی مغربی کنارے پرمغربی کنارے کے علاقے اور ـ جس کو جسے وہ "یہودا اور سامرہ" کہتے ہیں، ـ کو قانونی حیثیت دینے کی کوششوں نے گذشتہ مہینوں میں ایک بڑا سیاسی ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔
عام خیال کے برعکس، صہیونیوں کا مغربی کنارے کو اپنے زیر قبضہ علاقوں میں شامل کرنے کی کوشش کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور اس کی تاریخ اس جعلی ریاست کے 1948 میں قیام سے بھی پرانی ہے؛ یہ ایسا خطہ ہے جس کی تاریخی، مذہبی اور نظریاتی اہمیت صہیونیوں کے لیے تل ابیب اور حیفا سے بھی زیادہ ہے اور صرف بیت المقدس کے ساتھ قابل موازنہ ہے۔
اسی بنا پر ہم 4 تجزیاتی رپورٹوں میں، مغربی کنارے کے صہیونی ریاست کے لیے تاریخی پس منظر اور اہمیت کی وجوہات اور اس کے قبضے کو قانونی شکل دینے کی صہیونی کوششوں کا جائزہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
کنیسٹ میں مغربی کنارے کے الحاق کا بل اور اسرائیلی اقدام پر عالمی غم و غصہ
اس سال کے موسم گرما میں، یہودا و سامرہ (مغربی کنارے) کے مقبوضہ علاقوں میں ضم کرنے کے نام سے مشہور بل بھیجنے اور "کنیسٹ" (صہیونی ریاست کی پارلیمنٹ) میں اس کی منظوری کے بعد، صہیونیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر عالمی احتجاج اور غم و غصہ پیدا ہؤا اور دنیا کے بہت سے ممالک، جن میں کئی یورپی ممالک شامل ہیں، نے اس اقدام کے رد عمل میں آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔
اگرچہ نیتن یاہو کابینہ اپنی مقامی مقبولیت میں کمی کی تلافی اور غزہ پٹی میں فوجی ناکامی کو چھپانے کے لئے شدت کے ساتھ کوشاں تھی کہ اس منصوبے کو پوری طرح نافذ کر دے، لیکن غزہ امن منصوبے کی ناکامی، اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی خرابی کے امریکی خدشے کی وجہ سے، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے دو اہم اراکین ـ ونس اور روبیو جو اس سے پہلے صہیونی منصوبے سے متقق تھے ـ مغربی کنارے پر قبضے کی مخالفت کا اعلان کرنے پر مجبور کیا اور انہوں نے عرب ممالک، خاص طور پر ابراہیم معاہدے کے اراکین کو 'زبانی یقین' دلایا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔
اگرچہ مغربی کنارے کے الحاق کا منصوبہ عارضی طور پر ایجنڈے سے باہر ہو گیا ہے، لیکن صہیونیوں کے سیاہ ماضی اور ماضی میں امریکہ کی ظاہری مخالفتوں اور عملی حمایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل مستقبل قریب میں مناسب موقع ملنے پر اس غاصبانہ منصوبے کی طرف دوبارہ لوٹے گا۔
6 روزہ جنگ اور فلسطینی سرزمین پر مکمل قبضہ
سنہ 1948 میں صہیونی ریاست کے قیام اور عرب فوجوں کے خلاف جنگ میں ان کی فتح کے ساتھ، صہیونیوں کا ارادہ تھا کہ دریائے اردن کے مغرب کے تمام اہم شہروں ـ رام اللہ، اریحا، بیت اللحم اور مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کر لیں، یہ وہ علاقے ہیں جو سنہ 1948 میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے موقع پر بھی ان یہودی بستیوں کا حصہ نہیں تھے جو صہیونی ریاست کو دیے جانے تھے، لیکن فلسطینی عوام اور بیت المقدس اور مغربی کنارے میں موجود اردنی افواج کی مزاحمت نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا۔

انتہا پسند صہیونی نظریہ ساز ـ جیسے زیف جبوتنسکی (Ze'ev Jabotinsky یا ولادیمیر یوگنیویچ ژابوتینسکی Vladimir Evgenievich Zhabotinsky)، جو انتہا پسند مجرمانہ گروہوں جیسے ارگن اور لیہی کے روحانی باپ سمجھے جاتے ہیں، ـ نہ صرف فلسطین بلکہ دریائے اردن کے پار کے علاقوں (موجودہ اردن اور شام اور سعودی عرب کے کچھ حصے) کو بھی "عظیم تر اسرائیل" کے قیام کے لئے ضروری سمجھتے تھے اور وہ بن گوریون جیسے لوگوں کے محتاطانہ خیالات کے مخالف تھے۔

"عظیم تر اسرائیل" کے نام سے مشہور نقشہ
مغربی کنارہ سنہ 1948 میں ایک سیاسی عمل کے ذریعے، اردن کی سرزمین میں شامل کیا گیا تھا اور درحقیقت اردن کی ریاست صہیونی قبضے کے مقابلے میں اس خطے کے فلسطینی عوام کی سلامتی کی ضامن بن گئی تھی؛ یہ صورتحال دو دہائیوں تک جاری رہی یہاں تک کہ 6 روزہ جنگ اور عرب فوجوں کی شکست کے المیے اور فلسطینی سرزمین پر مکمل صہیونی قبضے کا واقعہ پیش آیا۔
مورخہ 5 جون 1967 کی صبح، صہیونی ریاست کے فضائیہ نے ایک پیشگی کارروائی میں مصر، شام، اردن اور عراق کی فضائی افواج کو زمین پر ہی تقریباً تباہ کر دیا اور اس ریاست کی زمینی افواج نے برق رفتاری سے حملہ کرکے فلسطین کی پوری سرزمین بشمول بیت المقدس، مغربی کنارے اور غزہ، شام کے گولان کی پہاڑیوں اور مصر کے صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا۔

فلسطینی عوام کی قومی مزاحمت نے اس لمحے سے ایک نیا رنگ و روپ اختیار کیا؛ اب فلسطین کا کوئی حصہ کسی عرب ریاست کے زیر تحفظ یا اس کے علاقے کا حصہ نہیں تھا اور اس کا پورا حصہ صہیونی دشمن کے قبضے میں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ