20 ستمبر 2025 - 23:43
مشترکہ اسلامی آپریشنل ہیڈکوارٹر کیسے قائم ہوگا؟

صہیونی ریاست کے خلاف مشترکہ آپریشنل ہیڈکوارٹر کا قیام محض ایک "مختصر فیصلہ" نہیں بلکہ میدانِ مزاحمت کی انتظامیہ میں ایک "ساختی انقلاب" (Structural revolution) ہے۔ اگر یہ ڈھانچہ وجود میں آئے تو دشمن کی جارحیت کا جواب فوری اور مؤثر طریقے سے دیا جا سکے گا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ہمارے ملک کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری "ڈاکٹر علی لاریجانی" نے گذشتہ دنوں دوحہ-قطر میں اسلامی اور عرب ممالک کے ہنگامی اجلاس کے حوالے سے ایک اہم جملہ لکھا: "کم از کم صہیونی ریاست کی دیوانگی کے خلاف مشترکہ آپریشنل ہیڈکوارٹر قائم کریں... یہی فیصلہ اس ریاست کے مالکوں اور آقاؤں کو پریشان اور فکرمند کر دے گا۔"

ایک اہم سوال اس تجویز سے جنم لیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ "مشترکہ آپریشنل ہیڈکوارٹر" کیوں قائم کیا جائے؟ ایران اور صہیونی ریاست کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ اور اسرائیل کی غزہ، لبنان، شام اور یہاں تک کہ قطر پر مسلسل صہیونی جارحیت نے واضح کر دیا ہے کہ انفرادی مقابلے کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اس خطے میں جہاں صہیونیت نے ریاستی دہشت گردی کو رائج کر رکھا ہے، انفرادی جوابات صرف جارحیت کے اعادے کا سبب بنتے ہیں۔

مشترکہ اسلامی آپریشنل ہیڈکوارٹر کیسے قائم ہوگا؟

فلسطینی مزاحمت کے "طوفان الاقصیٰ" آپریشن، حزب اللہ لبنان کی 33 روزہ جنگ، غزہ کی 12 روزہ اور 5 روزہ لڑائیوں، اور آخر میں دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے جواب میں ایران کے ردعمل نے ثابت کیا کہ اگر آپریشنل ہم آہنگی ہو تو صہیونی ریاست کی کمزوری اور زدپذیری ناقابل تصور حد تک زیادہ ہے۔

مشترکہ آپریشنل ہیڈکوارٹر کیا ہے اور اس کی افادیت کیا ہے؟

فوجی اور سیکورٹی اصطلاحات میں، "مشترکہ آپریشنل ہیڈکوارٹر" ایک ایسا ڈھانچہ ہے جس کا کام متعدد اداروں یا ممالک کے درمیان فوجی، انٹیلی جنس، رسد، سائبر اور میڈیا آپریشنز کو منظم، مربوط، ہم آہنگ اور بامقصد طریقے سے چلانے کے لئے ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔

محض سیاسی اجلاسوں کے برعکس، ایک آپریشنل ہیڈکوارٹر اہم حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، جیسے:

• اراکین کے درمیان خفیہ ڈیٹا بیس اور خفیہ مواصلات

• بامقصد و مربوط علاقائی آپریشنل نقشہ

• کمانڈ اور ذمہ داریوں کی تقسیم کا نظام

• آپریشنل اور میڈیا اقدامات کے نفاذ کا نظام الاوقات

• بحران اور جنگی حالات کے لئے ہنگامی مواصلاتی لائن

ایسے ڈھانچے کا قیام نہ صرف اسرائیلی جارحیت کا جواب ہے، بلکہ یہ ایک اسٹریٹجک ڈیٹرنس روک تھام کا باعث بھی سمجھا جاتا ہے۔

مشترکہ اسلامی آپریشنل ہیڈکوارٹر کیسے قائم ہوگا؟

اہم نکتہ یہ ہے کہ مشترکہ ہیڈکوارٹر بنانے کا خیال محض کاغذ لکھی ہوئی تجویز نہیں ہے؛ بلکہ درحقیقت، میدان جنگ میں اس کے سادہ اور مقامی ورژن برسوں سے آزمائے جا چکے ہیں۔ ایک مثال سوریہ کا آپریشن روم (2013 سے 2018) ہے۔ اس دوران ایران، حزب اللہ، شامی فوج اور عراق کی عوامی فورسز (الحشد الشعبی) کے درمیان انٹیلی جنس تعاون کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے۔

سنہ 2006 میں لبنان میں صہیونی ریاست اور حزب اللہ لبنان کی 33 روزہ جنگ بھی میزائل اور انٹیلی جنس کے میدان میں حزب اللہ اور ایران کے درمیان ہم آہنگی بھی ایک نمونہ ہے۔ اسرائیل کے انفراسٹرکچر پر مشترکہ سائبر اور الیکٹرانک حملے، ـ جیسے کہ 2023 میں مزاحمتی گروپوں کے آپریشنز، ـ دیگر کامیاب مثالیں ہیں۔ ڈرونز کی نگرانی اور فوری جواب دینے کے لئے ہم آہنگی کے مقصد سے، جنوبی لبنان اور غزہ میں مشترکہ دفاعی نظآم، بھی ایک نمونہ تھا۔

یہ تجربات ثابت کرتے ہیں کہ اگرچہ کوئی رسمی اور مستقل ہیڈ کوارٹر موجود نہیں ہے، لیکن اس کی فکری، تکنیکی اور انسانی بنیادیں تیار ہیں۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ اس ڈھانچے میں ایران کی حیثیت محض سیاسی مسائل کی بنا پر نہیں، بلکہ میدانی اور تزویراتی حقائق پر استوار ہے؛ جیسے ایران کا ڈرون اور دقیق میزائل ٹیکنالوجی پر عبور، خطے میں ایران کا مربوط معلوماتی نیٹ ورک، اور مشرق سے مغرب تک مزاحمت کے رابطے کے مرکز کے طور پر اس کا جغرافیائی-سیاسی محل وقوع۔

مشترکہ اسلامی آپریشنل ہیڈکوارٹر کیسے قائم ہوگا؟

ایران واحد ملک ہے جو سخت میدان (او فوجی شعبے) اور نرم میدان (اور ابلاغیاتی اور سائبر شعبے) دونوں میں اسرائیل کو نقصان پہنچانے میں کامیاب رہا ہے۔

ہیڈ کوارٹر کے اصل اراکین کون سے ممالک اور گروہ ہیں؟

مشترکہ آپریشنل ہیڈ کوارٹر ایک کثیر سطحی ڈھانچے کے ساتھ تشکیل دیا جا سکتا ہے: اس میں فوجی ہارڈ ویئر کا محور ایران، شام، لبنان (حزب اللہ)، عراق (حشد الشعبی) اور یمن (انصاراللہ) پر مشتمل ہے۔

جہادی اور میدانی محور میں حماس، جہاد اسلامی، فلسطین کی آزادی کے لئے عوامی محاذ، کتائب حزب اللہ (عراق)، فاطمیون (افغانستان) اور زینبیون (پاکستان) شامل ہیں۔

سیاسی اور میڈیا سپورٹ کا محور قطر، الجزائر، تیونس، ترکی (کچھ شعبوں میں) اور المیادین، العالم، پریس ٹی وی، المنار جیسے نیٹ ورکس پر مشتمل ہے۔

مشترکہ آپریشنل ہیڈکوارٹر کے بنیادی مشن

مشن کے بغیر مشترکہ آپریشنل ہیڈکوارٹر کا قیام لاحاصل ہوگا۔ اس ہیڈکوارٹر کی سب سے اہم ترجیحات میں یہ ہیں:

• وسیع پیمانے پر انٹیلی جنس کوآرڈینیشن اور خفیہ ڈیٹا کا تبادلہ،

• مختلف محاذوں پر اسرائیلی حملوں کا ہم آہنگ بروقت جواب،

• فرنٹ لائن (بشمول غزہ) کو جدید ہتھیاروں اور سازوسامان کی ترسیل کا نظام،

• صہیونی جارحانہ اور دفاعی نظامات پر مشترکہ سائبر حملے،

• حملے یا دفاع کے دوران نفسیاتی اور میڈیا آپریشنز کا انتظام۔

قانونی جواز کا سوال

کچھ لوگ پوچھ سکتے ہیں: کیا ایسے ہیڈکوارٹر کا قیام جائز ہے؟ جواب قطعاً 'ہاں' میں ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق، فوجی جارحیت کے خلاف دفاع ہر ملک یا قوم کا تسلیم شدہ حق ہے۔ دوسری جانب، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے قراردادوں میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ زیر قبضہ علاقوں اور ممالک میں رہنے والی اقوام کو مزاحمت کا حق حاصل ہے۔

مشترکہ اسلامی آپریشنل ہیڈکوارٹر کیسے قائم ہوگا؟

لہٰذا، فلسطینی مزاحمت، حزب اللہ اور انصاراللہ کی مدد نہ صرف غیر قانونی نہیں بلکہ اخلاقی اور قانونی طور پر بالکل جائز بلکہ واجب ہے۔

میڈیا کا کردار: جنگ بندوق کے بغیر

آج کل میڈیا جنگ کی فرنٹ لائن ہے۔ ایک مشترکہ آپریشنل ہیڈکوارٹر، میڈیا بازو کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں اہم محور یہ ہیں:

• فیلڈ میڈیا جیسے المیادین، المنار، المسیرہ؛

• تجزیاتی اور بین الاقوامی میڈیا جیسے پریس ٹی وی، العالم، آر ٹی عربی؛ اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس

• سائبر آپریشنز: جو تیزی سے بیانیہ سازی، جھوٹی تشہیر کے جوابات اور دشمن کے جرائم کو بے نقاب کرنے میں سرگرم رہتے ہیں۔

مشترکہ آپریشنل ہیڈکوارٹر کو درپیش چیلنج

ایسے ہیڈکوارٹر کا قیام چیلنجوں کے بغیر نہیں ہوگا۔  سب سے اہم رکاوٹیں اور ان کے لئے حل کے راستے یہ ہیں:

• بعض مسلم ممالک کے نقطہ نظر میں اختلاف، جس کا مجوزہ حل غیر رسمی تعاون اور غیر سرکاری گروہوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔

• مغربی پابندیوں کا خوف، ے۔ اس مسئلے کا تجویز کردہ حل علاقائی اور غیر مغربی مالی میکانزم کا استعمال ہے۔

• دشمن کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی دراندازی: اس رکاوٹ پر قابو پانے کا تجویز کردہ حل مواصلات کی گہری خفیہ کاری اور مقامی چینلز کا استعمال ہے۔

• مذہبی اور نسلی تقسیم: اس مسئلے کا حل مشترکہ دشمن پر زور دینا ہے نہ کہ مذہبی یا نسلی اختلافات پر۔

صہیونی ریاست کے خلاف مشترکہ آپریشنل ہیڈکوارٹر کا قیام محض ایک "مختصر فیصلہ" نہیں، بلکہ میدان مزاحمت کے انتظام میں ایک "ساختی انقلاب" ہے۔ اگر یہ ڈھانچہ وجود میں آتا ہے تو دشمن کی جارحیت کا جواب فوری اور مؤثر ہوگا۔ اسرائیل کے خلاف علاقائی روک تھام (Deterrence) مضبوط ہوگی۔ عالم اسلام کی رائے عامہ محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کو مضبوط بنانے میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے گی؛ یہی نہیں بلکہ اسرائیل کے مغربی حامی بھی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ نمائشی بیانات کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اگر دشمن ہائبرڈ آپریشنز کرتا ہے تو ہمارا جواب بھی ہائبرڈ ہونا چاہئے: ندوق سے سائبر اسپیس تک، ڈرون سے سوشل میڈیا تک۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha