بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || قطر پر حالیہ صہیونی حملوں اور حماس کے قائدین کے قتل کی ناکام کوشش کے بعد اسلامی دنیا میں اجتماعی سلامتی کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ مصر نے عربی نیٹو کے تصور کو دوبارہ زندہ کرتے ہوئے نیٹو کے طرز پر ایک فوری "ردعمل فورس" بنانے کا پرانا منصوبہ پیش کیا ہے، جس کا مقصد خطے میں اپنی [مصری] قیادت کو مضبوط کرنا ہے۔ یہ منصوبہ 9 سال قبل پیش کیا گیا، اور اب مصر، ایک مصری جرنیل کی قیادت میں، 20,000 مصری فوجیوں کی تعینات کرکے اس پر عملدرآمد کرنے کا خواہاں ہے؛ جبکہ سعودی عرب اہم شراکت دار اور مراکش اور الجزائر ممکنہ شراکت داروں کے طور پر اس مصری منصوبے میں شامل ہیں۔
جغرافیائی سیاسی لحاظ سے یہ اقدام عرب ممالک کی طرف سے علاقائی خطرات کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار ہے، خاص طور پر غزہ اور قطر پر حالیہ حملوں کے بعد، جبکہ امریکی قیادت میں سلامتی کے موجودہ انتظامات ناکام ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود، اس منصوبے کو گہرے چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں سب سے اہم، مداخلت کے وقت کا تعین اور فورس کو فعال کرنے کا طریقہ کار ہے، جس کے لئے عرب ممالک کے درمیان بے مثال سیاسی معاہدے درکار ہیں جن کے مفادات اور خواہشیں متضاد ہیں۔
علاوہ ازیں، سعودی عرب کے ساتھ خفیہ کشیدگی موجود ہے، جو خطے میں قیادت کے حوالے سے ایک روایتی حریف ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ آیا یہ معاہدہ صرف ایک عرب سلامتی معاہدہ بن کر رہ جائے گا یا غیر عرب مسلم ممالک جیسے ایران، ترکی اور پاکستان کے ساتھ تعاون کا ذریعہ بنے گا، جو اسلامی اتحاد کے وسیع تر تصور کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگا۔
روزنامہ "یروشلم پست" کے مطابق، مصر اس اقدام کے ذریعے عرب دنیا میں اجتماعی سلامتی کے دائرہ کار میں اپنی قیادت کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس سے عرب دنیا کی قیادت کے حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ خفیہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے، جو اس میدان میں مصر کا روایتی حریف ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ مشترکہ فورس 'اسلامی اتحاد' کے تصور کے تناظر میں کہاں کھڑی ہوگی؟ کیا یہ محض ایک عرب سلامتی معاہدہ بن کر رہ جائے گا [جو جمال عبدالناصر کے پیش نظر تھا اور عرب دنیا کی تنہائی اور اسلامی سرزمینوں کی اسیری کا سبب بن گیا تھا]؟ یا اسے وسیع تر اسلامی تعاون کے لئے ایک دروازے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب بڑی حد پر اس معاہدے کی نسبت ایران، ترکی اور پاکستان جیسے غیر عرب مسلم ممالک کے رویے پر منحصر ہے کہ وہ اس معاہدے کے ساتھ کس طرح تعامل کرتے ہیں۔
امریکی اثر و رسوخ میں کمی کے موجودہ تناظر میں، یہ اقدام خطے میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے، جہاں عرب ممالک [بظاہر] قومی مفادات اور علاقائی استحکام کو ترجیح دینے لگے ہیں!
بالآخر اس منصوبے کی کامیابی نہ صرف فوجی ڈھانچے اور آپریشنل طریقہ کار ـ جیسے تکنیکی چیلنجز - کو حل کرنے پر منحصر ہے، بلکہ مسلم ممالک کے درمیان تاریخی-سیاسی اختلافات پر قابو پانے پر بھی منحصر ہے۔
عرب اور اسلامی ممالک نے امریکہ اور صہیونی ریاست کی طرف سے مسلم ممالک بالخصوص غزہ پر وحشیانہ جارحیت کے خلاف خاموشی اور بے عملی کا مظاہرہ کرکے صہیونی ریاست کو مزید جری بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں فلسطینی اور صہیونی مذاکرات کے میزبان ملک قطر پر حملہ ہؤا۔ لہٰذا اگر اسلامی ممالک کی طرف سے ان جارحیتوں کے خلاف کوئی بنیادی اور تسدیدی اقدام نہ کیا گیا تو خطے کے دیگر ممالک کو بھی صہیونی ریاست کی جارحیت کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
اسلامی دنیا ایک تاریخی دو راہے پر کھڑی ہے: یا تو وہ حقیقی سیکیورٹی یکجہتی کی طرف بڑھے، یا پھر غیر ملکی خطرات کے سامنے منتشر اور غیر محفوظ رہ کر بیرونی جارحیتوں کا نشانہ بننے کے لئے تیار رہے۔ بہرحال اس طرح کے منصوبے ـ نافذ العمل ہونے کی صورت میں ـ خطے کے مستقبل بلکہ مغربی ایشیا میں طاقت کے توازن پر اثرانداز ہونگے۔
بقلم: مصطفی علی جان زادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ:
اسلامی تعاون کی راہ میں تاریخی اختلافات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، جن پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے اور ان پر قابو پانے کے لئے عربی نیٹو کی نہیں بلکہ اسلامی اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ عربی اتحاد بذات خود اسلامی دنیا میں ایک دراڑ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا تلخ تجربہ عرب-اسرائیل جنگوں میں عربوں کی اجتماعی شکست کی صورت میں دیکھا جا چکا ہے۔
اس تناظر میں، اسلامی دنیا ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے، جہاں اسے حقیقی سلامتی یکجہتی اور باہمی تعاون کی طرف بڑھنا ہوگا، یا پھر غیر ملکی جارحیت کا شکار ہوتے رہنا ہوگا؛ اگر عربی-قومی تنگ نظری کو ترک کرکے اسلامی دنیا کی اجتماعی سلامتی کو نظر میں رکھا جائے، تو ایسے منصوبے کی کامیابی نہ صرف مشرق وسطی کی سلامتی کی غیر یقینی صورت حال کے ازالے کا سبب بن کر اس خطے کے استحکام کا سبب بنے گی بلکہ بلکہ عالمی سطج پر طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کرے گی اور یہ یک-قطبی دنیا کے بعد کی دنیا میں مسلمانوں کی پوزیشن کو تقویت پہنچائے گی۔
حالیہ چند مہینوں میں صہیو-امریکی محاذ نے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ایران کو بھی نشانہ بنایا ہے، اور ہم نے دیکھا ہے کہ عربی اور اسلامی ممالک کی اب تک کی بے حسی اور بے عملی درحقیقت دشمنوں کی جارحیت کی حوصلہ افزائی میں کردار ادا کرتی آئی ہے؛ چنانچہ ایک مربوط اور مضبوط اسلامی دفاعی حکمت عملی ہی مستقبل کے حملوں کو روک سکتی ہے؛ اس حوالے سے سعودی عرب کے ایک غیر عرب ملک پاکستان کے ساتھ تزویراتی دفاعی معاہدے کو بطور نمونہ دیکھا جا سکتا ہے اور اسلامی ممالک اسی راہ پر گامزن ہوکر عظیم تر اسلامی دفاعی اتحاد کے قیام پر کام کر سکتے ہیں۔
بقلم: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ