بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سب سے پہلے طوفان الاقصیٰ کو اس کے اپنے وقت کے تناظر میں دیکھنا چاہئے یعنی سات اکتوبر وقت فجر۔ وہ دن جب سعودی عرب تیزرفتاری سے اسرائیل کی معمول سازی کی طرف بڑھ رہا تھا اور اسرائیل اور اس اہم عرب ملک کے درمیان معاہدوں کی تمہیدات مکمل ہو چکی تھیں؛ 'ایسے معاہدے جن میں اسرائیل کی طرف سے دو ریاستی عمل کی توثیق شامل نہیں تھی'۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا اور اسرائیل صدی کی اس سودے بازی کو حتمی شکل دے دیتا جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر فلسطینیوں کو بالکل بے دخل کرنا تھا۔
ان وضاحتوں اور دیگر کئی شواہد کی روشنی میں، یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ شہید سنوار اور حماس کے دیگر فیلڈ کمانڈروں کا اس موقع پر یہ فیصلہ بالکل درست تھا۔
علاوہ ازیں، سیاسی ماحولیات اور واقعے کے بعد کے اندازوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ حماس کے مختلف ذمہ داروں کے بیانات کے مطابق، کمانڈروں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ غزہ اور مقبوضہ علاقوں کے درمیان حائل دیوار اتنی آسانی سے گر جائے گی۔
آپریشن کی منصوبہ بندی میں ـ دیوار پر بڑے پیمانے پر حملہ، غزہ کے ارد گرد کے اسرائیلی اڈوں میں داخلہ، پٹی سے لگے ہوئی کچھ نوابابادیوں میں محدود داخلہ اور وہاں سے قیدی پکڑ کر واپس آنا ـ شامل تھا۔ لیکن اچانک حماس کے فوجیوں نے اعلان کیا کہ وہ مقبوضہ علاقوں کی گہرائی میں موجود ہیں اور دیوار تیزی سے گر گئی ہے۔ یوں حالات کا کنٹرول اور فوجوں کی باگ ڈور سینئر کمانڈروں کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
آپریشنل فورسز کو صحیح طور پر معلوم نہیں تھا کہ اس صورت حال میں انہیں کیا کرنا چاہئے۔ حماس کے بغیر بھی کئی مسلح گروہ اسرائیلی نوآبادیوں میں داخل ہو گئے اور منصوبے سے باہر کے کچھ اقدامات کئے اور اسرائیل کو بہانے فراہم کئے۔ ایسے بہانے جنہیں اسرائیل نے طویل عرصے تک اپنی نسل کشی اور بربریت کے لئے دستاویز بنایا۔
دوسری طرف ہمیں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ بعد کے واقعات، بشمول شام اور لبنان کے واقعات اور یہاں تک کہ اسلامی ایران پر حملہ، اس مسئلے سے الگ ہیں اور ان کی منصوبہ بندی سات اکتوبر سے کئی سال پہلے کی جا چکی تھی۔ مثال کے طور پر، اب اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ اسرائیلی اور امریکی فضائیہ نے سات اکتوبر کے حملے سے ایک سال پہلے ایران پر حملہ کرنے کی مشترکہ مشقیں منعقد کی تھیں۔
یا حزب اللہ لبنان کے خلاف صہیونی ریاست کی پیجرز دہشت گردی کی منصوبہ بندی کا کام سنہ 2015 سے شروع ہؤا تھا۔
لہٰذا ان دو سالوں میں جو کچھ ہؤا ہے وہ لگاتار اور بہت تیزی سے ہؤا ہے لیکن ان کا بنیادی محرک طوفان الاقصیٰ آپریشن نہیں تھا۔
البتہ ان معاملات میں بھی، دوسرے فریقوں کی طرف سے کچھ غلط اندازے یا بروقت نہ لئے گئے فیصلے یا غلطیاں اثر انداز ہوئی ہیں، لہٰذا ہر فیصلے پر ماحولیاتی حقائق اور اس وقت کے حالات پر بات کرنے کی ضرورت ہے جس وقت ان کا فیصلہ ہؤا تھا۔
طوفان الاقصیٰ ہنوز جاری ہے اور یہ ابھی ختم نہیں ہؤا ہے چنانچہ اس کے بارے میں کوئی حتمی اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے؛ لیکن بہت سے عظیم شہدا کا وصال اور دنیا میں فلسطین کے مسئلے کی دوبارہ بیداری اس کے دو اہم اور بنیادی نتائج ہیں۔
کامیابیوں کو مستحکم کرنے کے لئے بہت سے کام کرنے کی ضرورت ہے؛ اندازوں اور تخمینوں کو درست کرنا اور مستقبل کی منصوبہ بندیوں کے لئے ماضی قریب اور حال کی صورت حال کو بہتر طور پر سمجھنا ضروری ہے تاکہ محور مقاومت کی فتح کے لئے راستہ ہموار ہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ