بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || بعد میں امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے، دو لاکھ سے زیادہ انسانوں کو مار ڈالا؛ فوجی فتح کے لئے نہیں، بلکہ دنیا کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے۔ یہ عمل اسی "انسان بھیڑیا" کے جملے کا اظہار تھا کہ ایسی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے کہ دوسرے خوف کے مارے ہتھیار ڈال دیں۔ درحقیقت، ایٹم بم نے اس "سماجی معاہدے" (Social Contract) کو عالمگیر بنا دیا کہ "دنیا کے لوگوں کو تباہی کے خوف سے امریکی نظم کے تحت زندگی گزارنا پڑے گا۔"
دوسری عالمی جنگ کے بعد، براہ راست نوآبادیاتی نظآم ختم ہو گیا، لیکن وہی منطق برقرار رہی: "طاقت ہمارے ہاتھ میں رہنی چاہئے تاکہ امن قائم رہے!۔"
سرد جنگ اور ایشیا اور لاطینی امریکہ میں امریکی بغاوتیں بھی اسی "بدنظمی کا مقابلہ" کی بنیاد پر جواز رکھتی تھیں۔ ایران بھی دوسرے ملکوں کی مانند، اس قاعدے کے نفاذ سے نہ بچ سکا: "سنہ 1953ع میں ڈاکٹر مصدق کی قومی حکومت کے خلاف بغاوت کرائی گئی اور جواز یہ دیا گیا کہ "یہ بغاوت ایران کو کمیونزم نرغے سے جانے سے بچانے" کے لئے تھی۔"
آج کا مغرب قرون وسطیٰ سے پہلے کے ان ہی بیانیوں کی ایک نئی شکل نافذ کر رہا ہے: "طاقت کے ذریعے امن" کا مطلب ہے "جو کوئی بھی ہمارے مطلوبہ نظم سے باہر ہو، وہ خطرہ ہے۔" یعنی بیانیہ وہی ہے لیکن ذرائع زیادہ متنوع ہو گئے ہیں: "میڈیا، پابندیاں، جنگ، سوشل نیٹ ورکس اور مصنوعی ذہانت۔" مغربی اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ "جس قوم پر ہمارا [یعنی مغربیوں کا] کنٹرول نہ ہو، وہ خطرناک ہے؛ لہٰذا اسے ٹیکنالوجی اور معلومات کے ذریعے قابو میں لایا جائے، اور اگر نہ ہو سکے تو جنگ کے ذریعے۔"
مغرب کی غیر منطقی منطق کی آخری واضح مثال ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ تھی۔ کیا اس سے زیادہ شرم کی بات بھی کوئی ہو سکتی ہے کہ کسی ملک کا صدر سر عام کہہ دے: "میں نے ایرانی قوم کو دھوکہ دیا؛ ان سے مذاکرات کے دوران میں نے ان کے خلاف جنگ کی!؟"۔ یا کہہ دے کہ: "میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں ایران پر اسرائیل کے 13 جون کے حملے کی قیادت کر رہا تھا؛ میرے پاس مکمل کنٹرول تھا؟!۔"
اس سے پہلے جرمن چانسلر نے بھی ایسی ہی بے شرمی کا اظہار کرتے ہوئے ایران پر حملے کے لئے اسرائیلی جارحین کا شکریہ ادا کیا اور کہا: "انہوں نے ہم سب مغربیوں کی طرف سے کام کا سخت اور گندا حصہ سر انجام دیا۔"
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلی نصف صدی میں، 70% سے زیادہ بین الاقوامی جنگیں مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ کی براہ راست یا بالواسطہ مداخلت سے شروع ہوئی ہیں۔ پچھلی دہائی میں، دنیا کے نصف فوجی اخراجات صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے تعلق رکھتے تھے۔
"مغربی امن" کی وضاحت ایک جملے میں یہ ہے کہ "طاقت کے مخروط کا سب سے اوپر والا کونا [امریکہ] ہے، جو انتہائی بے شرمانہ اور احمقانہ غرور کے ساتھ کہتا ہے: "میرے پاس اتنا جوہری ہتھیار ہے کہ میں دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتا ہوں۔"
لیکن اس وحشی تہذیب کے مقابلے میں ایران ہے، جو پوری تاریخ میں کبھی بھی تسلط پذیر نہیں رہا اور کبھی بھی زیر تسلط نہیں رہا۔ ساسانی دور میں، مذہبی حمایت یافتہ سیاسی طاقت کی ایسی جڑیں تھیں کہ بازنطینی ـ رومی سلطنت ایران کو اپنے برابر سمجھتی تھی۔ صفوی دور میں، علم اور ایمان نے مل کر کھڑے ہو کر ایسی حکومت بنائی جو یورپ سے جنگ میں نہیں بلکہ توازن میں ایک جیسی تھی۔
اسلامی انقلاب نے اس تاریخی تجربے کو اپ ڈیٹ کیا: "وابستگی کے بغیر علم و سآئنس اور تسلط قبول کئے بغیر طاقت؛ اور دونوں کا روحانیت پر انحصار۔" پچھلی چار دہائیوں میں، مغرب کے ایران کے ساتھ تعلقات اسی قاعدے پر قائم رہے: 'سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعامل،' لیکن 'سیاست اور سلامتی میں آزادی اور مقاومت و مزاحمت'۔
جب امریکہ نے ایران پر تسلط جمانے کے لئے معیشت، ثقافت، اور آخر کار جنگ کا سہارا لیا ہے، تو اس قوم کا جواب "مقاومت" کی صورت میں سامنے آیا؛ وہی طاقتور مقاومت جس نے 12 روزہ جنگ میں مغرب کی جنگلی منطق کو چیلنج کیا۔
"امریکی مسلط کردہ امن" کا فارمولا ایرانیوں مؤثر واقع نہیں ہؤا اور مؤثر واقع نہیں ہو گا؛ وہ ایرانی قوم کے عزم میں خلل نہیں ڈال سکتے۔
"خود مختار اور طاقتور ایران" کا موقف وہی ہے جس کا اظہار اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کے سکریٹری نے 10 نومبر سنہ 2025ع کو کیا تھا: "ایران اپنی خودمختاری کو فروخت کے لئے پیش نہیں کرتا، چاہے اس کی قیمت 'براہ راست تصادم' ہی کیوں نہ ہو؛ 'اور پوری طاقت سے جدید وحشی پن کا مقابلہ کرے گا۔'"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ