2 نومبر 2025 - 14:04
اسرائیل کے فلسفے پر ضرب پڑی ہے یاں سے بھی واں سے بھی

اسرائیل کے فلسفے کو وار پڑا ہے"، [یہاں بھی اور وہاں بھی، مغربی ایشیا میں بھی امریکہ میں بھی اور ہاں، یورپ اور ایشیا میں بھی۔۔۔ آج کے حقائق یہ ہیں۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، کالم نگار علی مہدیان نے فارس نیوز ایجنسی کی ویب گاہ ميں لکھا:

امریکی معاشرہ اسرائیل سے تعلق کے حوالے سے تیزی سے بدل رہا ہے۔

آیئے کچھ خبروں کا جائزہ لیتے ہیں:

امریکہ میں ایک عوامی اجتماع میں ایک نوجوان نے بلا جھجک امریکی نائب صدر سے پوچھا: "کیا ہم کسی چیز کے حوالے سے اسرائیل کے مقروض ہیں؟ لوگ کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں؟" اور حاضرین نے تالیاں بجا کر اس کی تائید کی۔ نائب صدر نے اصل جواب دینے کے بجائے کہا: "موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں۔"

ایک خبر یہ تھی کہ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اور ماہر معاشیات جیفری ساکس نے کہا: "امریکہ اسرائیل کی جنگوں کے اخراجات اٹھا رہا ہے، جس سے ہمارے معیار زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔"

اور امریکی اخباری-تجزیاتی ویب گاہ "نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا: "اسرائیل کی مہم جوئی کا خرچہ امریکیوں کی جیب سے ادا ہو رہا ہے۔"

انا کاسپاریان (Ana Kasparian)، امریکی میزبان اور میڈیا ایکٹوسٹ نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا: "اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو ہمارے پیسے سے نہ کرے۔ امریکی شہری بہتر زندگی کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، لیکن ان سے اربوں ڈالر اسرائیلی ریاست اور فوج دینے کے لئے کہا جا رہا ہے۔"

امریکہ نے ویسٹ بینک کے اسرائیل میں ضم کرنے کے معاملے پر واضح موقف اختیار کیا۔ اس سے پہلے، امریکی سینیٹر ایڈم شف (Adam Bennett Schiff) کی قیادت میں 46 سینیٹرز نے ٹرمپ کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے پر سخت موقف اختیار کریں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ویب سائٹ "ڈیلی کالر" کے ساتھ انٹرویو میں کہا: "اسرائیل، امریکہ میں، تقریباً 15 سال پہلے سب سے طاقتور لابی سمجھا جاتا تھا جو میں نے دیکھی تھی؛ یہ لابی کانگریس پر مکمل کنٹرول رکھتی تھی، لیکن اب وہ اپنا اثر و رسوخ ختم ہو چکا ہے۔"

ان تمام خبروں کو اکٹھا کریں تو ایک نتیجہ نکلتا ہے: "امریکی معاشرہ دھیرے دھیرے اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ امریکہ جتنا اسرائیل کے لئے خرچ کر رہا ہے، اس کا اتنا اس کا اس ملک کو فائدہ نہیں پہنچتا، نہ صرف یہ بلکہ اسرائیل کے تمام اخرابجات اامریکہ کے لئے اٹھانا پڑ رہے ہیں لیکن اس کا اس کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے"؛ یہ وہی اہم ترین اسٹراٹیجی ہے جس کی طرف امام خامنہ ای اور شہید سید حسن نصراللہ جیسے مقاومتی قائدین نے بارہا اشارے کئے ہیں اور فرماتے رہے ہیں کہ "ہمیں اس انداز سے کام کرنا چاہئے کہ مغرب اور بالخصوص امریکہ کے لئے اس کے اخراجات اس کے فوائد کے برابر نہ رہیں [اس کا خرچہ اس کے فائدے سے بڑھ کر ہو]"۔

"اس کا مطلب ہے خطے میں 'اسرائیل کے فلسفے پر' ضرب پڑی ہے"، [یہاں بھی اور وہاں بھی، مغربی ایشیا میں بھی امریکہ میں بھی اور ہاں، یورپ اور ایشیا میں بھی]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha