بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ایران ریلوے، اس نقطے سے، پہلے سے کہیں زیادہ، قریب ہے جہاں مشرق اور مغرب ملتے ہیں۔ تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ سال 80 ٹریلین تومان سے زائد سرمایہ کاری ملک کے ریلوے سیکٹر کی طرف راغب ہوئی ہے اور یہ رجحان ایران اور چین کے تعاون میں اضافے کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔
سڑکوں اور شہری ترقی کے نائب وزیر اور ریلویز کے منیجنگ ڈائریکٹر جبار علی ذاکری نے اعلان کیا ہے کہ چین سے 300 مال بردار ٹرینیں اس سال کے آخر تک ایران پہنچیں گی؛ اتنی بڑی تعداد، جو بتاتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ریلوے تعاون سیاسی معاہدوں کی سطح سے آگے بڑھ گیا ہے اور عمل درآمد کے مرحلے تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے بین الاقوامی مال برداری میں ریلوے کے اہم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: "چین سے ترکی تک بیلٹ اینڈ روڈ کوریڈور کے ساتھ ساتھ چھ ممالک کے تعاون سے، مشترکہ ٹیرف کی وضاحت کی گئی ہے اور اس کے مطابق، 30 ٹرانزٹ ٹرینوں کو مربوط کیا گیا ہے، جو اس سال کے آخر تک 300 تک پہنچ جائیں گی۔"
یہ کامیابی اس بین الاقوامی راہداری کے جنوبی روٹ کو فعال کرنے اور مال برداری کی سہولت فراہم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
واضح رہے کہ یہ ترقی چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ" اقدام، یا BRI کے فریم ورک کا حصہ ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جو تاریخی زمینی راستوں کو بحال کرکے اور چین کو آبنائے ملاکا میں ریاستہائے متحدہ کو بائی پاس کرنے کے لئے متبادل راستہ فراہم کرکے عالمی تجارت میں ایک نیا توازن پیدا کرے گا۔
ایران کو یوریشیا کے قلب میں اپنے منفرد جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اس منصوبے میں ایک تزویراتی حیثیت حاصل ہے۔ چین کے شہر جِنْ ژوُو (ژینگژو Zhengzhou) سے تہران تک مال بردار ٹرین کی حالیہ نقل و حرکت کو بھی اس راستے میں ایک اہم موڑ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ سفر کوئی علامتی اقدام نہیں ہے بلکہ ایران کے راستے سامان کے تبادلے کا حجم بڑھانے کے لئے ایک پائیدار عمل کا آغاز ہے۔
نقل و حمل کے ماہرین کا خیال ہے کہ چین سے ٹرینوں کی اس تعداد میں آمد کا مطلب صرف ٹریفک میں اضافہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ حریفوں کو بھی واضح پیغام بھیجتا ہے۔ جبکہ متبادل راستے جیسے کہ ہند-یورپ اکنامک کوریڈور (IEEC) کو امریکہ اور صہیونی ریاست نے، ایران کو بائی پاس کرنے کے لئے، ڈیزائن کیا ہے، تہران-بیجنگ ریل ٹریفک میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران مشرق کو مغرب سے ملانے کے لئے سب سے محفوظ اور مختصر ترین راستوں میں سے ایک ہے۔
اس کے علاوہ خطے کے شمال میں، زنگزور راہداری اور جنوبی قفقاز میں امریکی داخلے جیسے منصوبے، چین-یورپ ٹرانزٹ کے ایک حصے کو ایران کے راستے سے موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ سرمایہ کاری اور سینکڑوں نئی مال بردار ریل گاڑیوں کی آمد، عالمی تجارت کے جغرافیے میں اپنی تاریخی پوزیشن برقرار رکھنے کے ایرانی عزم کا اظہار ہيں۔
جیو-پولیٹکس کے تجزیہ کاروں کا زور دینا ہے کہ ان تبدیلیوں کا محض معاشی پہلو نہیں ہے۔ جیسا کہ 'صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو موجودہ عالمی نظام کے لئے خطرہ' قرار دیا تھا، آج تجارتی راستوں پر مقابلہ، بڑی طاقتوں کے درمیان طاقت کے توازن کا میدان بن چکا ہے۔
ایسے حالات میں، ایران کا کردار ـ بیسویں صدی میں پیش کردہ 'ہالفورڈ میکائنڈر' (Halford Mackinder) کے تصور کے مطابق ـ یوریشیا کے 'ہارٹ لینڈ' کے طور پر، مزید نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔
اب بنیادی سوال یہ ہے: کیا ایران نئی سرمایہ کاری اور چین کے ساتھ تعاون پر انحصار کرتے ہوئے عالمی ٹرانزٹ کی ایک اہم شاہراہ کے طور پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کر سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب موجودہ رجحان کے تسلسل پر منحصر ہے؛ ایک ایسا رجحان جس کا عملی ثبوت سال کے اختتام تک 300 چینی ریل گاڑیوں کی آمد، ہے۔
ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کے ماہر کریم نائینی نے بتایا کہ ایران اور چین کے درمیان ریلوے رابطہ تین ممکنہ راستوں سے ہو سکتا ہے: پہلا راستہ وسطی ایشیا ہے جو اس وقت بالکل فعال ہے، دوسرا راستہ افغانستان کے علاقے واخان سے گذرتا ہے، اور تیسرا راستہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) سے ہو کر گذرتا ہے جو 60 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے۔
انھوں نے مزید کہا: "چین نے آبنائے ملاکا کو بائی پاس کرنے کے لئے CPEC کوریڈور کے منصوبے کا آغاز کیا، اور اب ان اقتصادی منصوبوں میں سے ایک جو دونوں ممالک کو فائدہ پہنچاتا ہے، وہ پاکستان کے ذریعے ایران اور چین کا رابطہ ہے۔"
نائینی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ریل کنکشن ایران کے جنوب مشرقی علاقے کی ترقی اور ایران کی واحد سمندری بندرگاہ 'چابہار بندرگاہ' کو تجارتی بندرگاہ بنانے میں مدد دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: محمد کریمی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ