بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے علاقائی دفتر کے نامہ نگار کے مطابق، کرغزستان کے سیاسی امور کے ماہر قادر ملکـوف (Kadyr Malikov) نے ایک مضمون میں امریکہ کی حمایت سے قطر پر کے خلاف صہیونی ریاست کی دہشت گردانہ کارروائی کا جائزہ لیا ہے۔
قادر ملکوف لکھتے ہیں:
قطر کے خلاف حالیہ اسرائیلی جارحیت، ـ جس کے نتیجے میں تحریک حماس کی سیاسی شاخ کے بعض نمائندے قتل ہوئے، جو مذاکرات کے عمل پر بات چیت کے لئے جمع ہوئے تھے، ـ ریاستی دہشت گردی کی واضح مثال بن چکی ہے۔
ان مذآکرات کاروں کو مار ڈالنا جو امن کے اقدامات کے لئے مدعو کئے گئے ہیں، سفارتی تعلقات کے بارے میں جنیوا کنونشنز، اور بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کی براہ راست اور کھلی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، اس طرح کے اقدامات سیاسی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں جس سے عائد ہونے والی ذمہ داری بین الاقوامی عدالتوں کی سطح کی ذمہ داری ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ یہ بھی واضح کر دیتا ہے کہ صہیونی ریاست نے بالآخر تمام قابل فہم حدود کو عبور کر لیا ہے۔ درحقیقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ مستقل جنگ کی حکمت عملی کا انتخاب کیا گیا ہے، اور قانون اور اخلاق کو یکسر نظرانداز کر لیا گیا ہے۔
اس سے قبل تہران میں بھی ایک مذاکراتی ٹیم پر ایسا ہی حملہ کیا گیا تھا [جس میں اسماعیل ہنیہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا اور]، جو اس ہتھکنڈے کی منظم اور ٹارگٹڈ نوعیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ صہیونی ریاست نے سفارت کاری کے تصور کو تباہ کرتے ہوئے سفیروں اور ثالثوں کو قتل کرنے کے عمل کو عملی طور پر اپنے لئے جائز بنا لیا ہے۔
امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ سیاسی کور (آڑ) پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے لئے واشنگٹن انتظامیہ کی حمایت کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی، لیکن آج ہم اس حمایت کی ایک نئی سطح دیکھ رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کھل کر "صہیونی-عیسائی اتحاد" بنانے کا اعلان کیا ہے۔
شاید 'بعد-از-لبرلزم-امریکہ' (Postliberal United-States) ایسے نظریات کے نگہبان کے طور پر کام کرے، جو مشرق وسطیٰ کے تنازعات کو عالمی تہذیبی مسئلہ بنا دیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی قیادت میں یک-قطبی دنیا کا موجودہ ماڈل زوال پذیر ہے۔ صہیونی ریاست اور واشنگٹن عملی طور پر دنیا کو انتشار کی طرف دھکیل رہے ہیں، بین الاقوامی معاہدوں کو تباہ کر رہے ہیں، سفارت کاری پر اعتماد کو مجروح کر رہے ہیں اور تنازعات میں شدت لا رہے ہیں۔ تاہم یہ منحوس ملک صہیونیوں کے مجرمانہ کی وجہ سے، اپنی بین الاقوامی ساکھ مکمل طور پر کھو چکا ہے۔
صہیونی ریاست اس وقت تک ایک دہشت گرد ریاست کی تصویر پیش کر رہی ہے، شہری اہداف پر حملہ کر رہی ہے، قطر اور تہران میں مذاکرات کاروں کو ہلاک کر رہی ہے، اور غزہ کا محاصرہ کئے ہوئے۔ وہ بین الاقوامی قوانین سے ہٹ کر لاقانونیت کے ہوا دینے والی ریاست کے طور پر ابھر چکی ہے۔
ایک یا دو سال پہلے، یورپ میں اسرائیل کی سیاسی حمایت غیر متزلزل دکھائی دیتی تھی۔ برطانیہ، جرمنی اور فرانس غیر مشروط طور پر تل ابیب کے ساتھ تھے۔ تاہم، صورتحال بنیادی طور پر بدل گئی ہے. دنیا نے ٹارگٹڈ نسل کشی اور دہشت گردی کو دیکھ لیا ہے۔ اب مغربی یورپ کے ممالک تیزی سے اس موقف کی طرف جھک رہے ہیں جس میں صہیونی ریاست کو عدم استحکام اور اس کی حکومت کو فلسطینی عوام کے خلاف دہشت گردی کی جنگ چھیڑنے والے اداکار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بین الاقوامی اداروں کی طرف سے تنقید بڑھ رہی ہے: اقوام متحدہ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت صہیونی ریاست کے جنگی جرائم کے مقدمات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سرکاری طور پر صہیونی ریاست کو اپاتھائیڈ اور نسل پرست قرار دیتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے تھمنے میں نہیں آ رہے ہیں؛ لندن، پیرس، برلن اور نیویارک میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، اور حکومتیں عوامی دباؤ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ افریقی، لاطینی امریکی اور ایشیائی ممالک (برازیل، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، ایران اور پاکستان) کھل کر اسرائیلی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں اور تل ابیب کی سفارتی تنہائی میں شدید اضافہ ہو رہا ہے۔
آج، اسرائیل کو صرف امریکہ اور معدودے چند [مجبور] اتحادیوں کی سرکاری حمایت حاصل ہے۔ لیکن عالمی رائے عامہ میں اس کی حقیقی قوت اور قانونی جواز عملی طور پر صفر تک پہنچ چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ