اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر حالیہ حملوں سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کو پیشگی اطلاع دی تھی۔امریکی نشریاتی ادارے آکسیوس (Axios) نے اتوار کو اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیل نے غزہ پر تازہ حملوں سے قبل امریکی حکومت کو باخبر کر دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق، تلابیب نے حملے سے پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو باضابطہ اطلاع دی اور یہ معلومات امریکی کمانڈ سینٹر کے ذریعے منتقل کی گئیں جو آتشبس کی نگرانی کر رہا ہے۔ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے آکسیوس کو بتایا کہ ہم جانتے تھے کہ کشیدگی بڑھنے والی ہے۔ جب دونوں فریقوں کو حملے کی آزادی دی جائے، تو وہ یقیناً اس کا استعمال کریں گے۔
اسرائیلی فوج نے جنگ بندی کی خلافورزی کا جواز پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے رفح کے قریب ایک ٹینک شکن میزائل فائر کیا۔تاہم، حماس کی عسکری ونگ القسام نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بھی واقعے سے آگاہ نہیں ہیں جو رفح میں پیش آیا ہو، کیونکہ وہ علاقہ اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہے، اور وہاں موجود ہمارے جنگجوؤں سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔
حماس نے زور دے کر کہا کہ وہ جنگ بندی کے تمام نکات پر مکمل طور پر کاربند ہے اور اس تنازعہ میں اسرائیل ہی معاہدے کی خلافورزی کا مرتکب ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق، اسرائیل نے حملے سے قبل امریکہ کو کمانڈ سینٹر کے ذریعے آگاہ کیا، جو آتشبس پر عمل درآمد کی نگرانی کر رہا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اسٹیو وِٹکاف (امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ) اور جَرد کوشنر (صدر ٹرمپ کے داماد) نے اسرائیلی وزیرِ امورِ تزویراتی ران درمر اور دیگر حکام کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کیے۔ان بات چیت کا مقصد آتشبس کے بعد کے مراحل پر تال میل اور غزہ کے سیاسی مستقبل پر مشاورت تھا۔
ایک امریکی اہلکار نے آکسیوس کو بتایا کہ ہم نے اسرائیل سے کہا کہ جواب متناسب ہو، جنگ دوبارہ نہ چھیڑے۔ تاہم، اسرائیلی اس بات پر مصر ہیں کہ حماس کو سبق سکھایا جائے — بغیر اس کے کہ امن معاہدہ تباہ ہو۔ واشنگٹن نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ غزہ میں فوجی آپریشن کی شدت معاہدے کے مستقبل کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ایک اور امریکی اہلکار نے کہا کہ آنے والے 30 دن فیصلہ کن ہیں۔ ہم غزہ کی صورتحال کے براہِ راست ذمہ دار ہیں اور یہ ہم ہی طے کریں گے کہ آگے کیا ہوگا۔
آکسیوس کی رپورٹ نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت واشنگٹن کی براہ راست منظوری اور ہم آہنگی سے انجام پاتی ہے۔اگرچہ امریکی حکام تحمل کا مظاہرہ کرنے کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کے بیانات اور عملی حمایت کے درمیان تضاد صاف ظاہر ہے —
ایک طرف جنگ بندی کی نگرانی کا دعویٰ، دوسری طرف صہیونی جارحیت پر خاموش منظوری۔
آپ کا تبصرہ