بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ایران اور چین دنیا کے کثیر قطبی نقطہ نظر کے علمبردار اور نقیب ہیں اور فطری طور پر امریکی بالادستی سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔ یہی حقیقت دونوں فریقوں کے تعلقات کو گہرے اور پائیدار تعاون کی جانب لے جا رہی ہے۔ تاہم، ایران کے اندر ہمیشہ سے کچھ خدشات موجود رہے ہیں؛ جیسے کہ "چینی قرضوں کے جال میں پھنس جانے" کا خدشہ یا "معاشی استعمار" سے دوچار ہونے کا خدشہ، جو بنیادی طور پر مغرب نواز حلقوں کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں اور مغربی عالمگیریت کے دور کی سوچ پر مبنی ہے۔
علاقائی حالات کی تبدیلی اور عالمی دباؤ کی اس صورت حال میں، یہ رکاوٹیں کم ہوئی ہیں اور ایران اور چین کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے مواقع میں اضافہ ہؤا ہے۔ عالمی جنوبی ممالک، خاص طور پر ایران، کے خلاف حالیہ امریکی-صہیونی اقدامات کی وجہ سے چین کے ساتھ تعاون کے بارے میں روایتی منفی نقطہ نظر کمزور پڑ گیا ہے۔ ساتھ ہی، امریکہ کی نئی حکومت کے دباؤ اور چین میں مغرب نواز حلقوں کے کمزور ہونے سے ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہے کہ دونوں ممالک عملی طور پر ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔
ایک حقیقت پسندانہ اور باہمی مفادات پر مبنی تعاون کے ماڈل کی تیاری خاص اہمیت رکھتی ہے۔ مثالی تعاون کا ماڈل قائم کرنے کے لئے، ایران بھی اپنے مقاصد اور پروگراموں کا جائزہ لے گا اور چینی فریق کے مقاصد کے ساتھ مشترکہ نکات کی نشاندہی بھی کرنا ہوگی۔ یہ تعاون صرف معاشی شعبے تک محدود نہیں ہے اور اس میں مختلف سکیورٹی، ثقافتی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شامل ہو سکتے ہیں۔ اس ماڈل میں کامیابی کی کلید دونوں فریقوں کے مفادات کو مدنظر رکھنا اور ایسے منصوبوں کو سامنے لانا ہے جن سے دونوں ممالک مستفید ہوں۔
صدر کا دورہ چین اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چابہار کی صلاحیتوں پر زور دیا جانا، ایران اور چین کے درمیان اسٹریٹجیک تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے اور دوطرفہ تعلقات کی ترقی کے راستے کو پائیدار اور متوازن طور پر روشن کر سکتا ہے۔ یہ عمل (Process) دونوں ممالک کی عملی قربت اور بعد یک-قطبیت کی بعد کی دنیا میں تعاون کے ایک حقیقت پسندانہ نمونے کی تشکیل کی عکاسی کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: علی رضا سلیمانی نژاد
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ