9 اگست 2025 - 00:40
پاکستان: بلوچستان کی بدامنی میں اسرائیلی قدموں کے نشان

تاریخ گواہ ہے کہ علیحدگی کی تحریکیں غیر ملکی مدد سے کامیاب ہو سکتی ہیں۔ لیکن علیحدگی پسند اکثر و بیشتر جیوپولیٹیکل مسابقتوں کے پیادے بن جاتے ہیں۔ کیا بلوچستان میں ہونے والی بغاوت ـ جس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، ـ بھی اسی شیطانی چکر میں پھنسنے جا رہی ہے؟

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || 25 جولائی 2025 کو الجزیرہ کی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اسرائیل پاکستان میں "بلوچ جدوجہد" کو انحراف سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ جولائی 1948 سے، پاکستان کو بلوچستان کے صوبے میں متعدد شورشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تقریباً 77 سالوں کے دوران ان شورشوں میں بہت سا اتار چڑھاؤ آیا ہے، کبھی یہ باغی آگے بڑھے ہیں، تو کبھی پیچھے ہٹے ہیں۔ قبائلی بغاوتوں سے لے کر بائیں بازو کی "آزادی" کی بغاوتوں؛ اور قوم پرست علیحدگی پسند بغاوتوں تک، بلوچستان نے مختلف قسم کے بلوچ قوم پرست گروہوں اور تحریکوں کا تجربہ کیا ہے۔

ان میں سے کچھ گروپ اب بھی پاکستان کے وفاقی فریم ورک کے اندر بلوچ عوام کے حقوق کے لئے کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

لیکن گذشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان سے مکمل علیحدگی کے خواہاں گروپوں میں نمایاں اضافہ ہؤا ہے۔

دنیا بھر میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکوں کی طرح، بلوچ "آزادی" کی تحریکوں کو بھی بیرونی حمایتیوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔

یہ تحریکیں اس طرح کی حمایت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی بقا ہمیشہ فتح پر بھی منتج ہوتی ہے۔

درحقیقت ایسے بھی کئی کیس ہیں جن میں علیحدگی پسند تحریکیں بیرونی طاقتوں کی مدد سے اپنے حتمی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

ان میں مشرقی پاکستان بھی شامل ہے، جہاں بنگالی قوم پرست، ہندوستان کی فوجی مدد سے، باقی ماندہ پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بنانے میں کامیاب ہوئے۔

ایک اور مثال کوسوو لبریشن فرنٹ (KLF) ہے۔ یہ محاذ جسے ابتداء میں کوسوو کے علاقے کو یوگوسلاویہ سے "آزاد" کرانے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا، اس محاذ نے 1992 میں یوگوسلاویہ کے خاتمے اور علاقے کے سربیا سے الحاق کے بعد، اپنا مقصد تبدیل کرکے سربیا کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا۔

KLF اس وقت تک زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کرتا رہا جب تک کہ اسے نیٹو ممالک کی حمایت حاصل رہی۔ نیٹو نے سلوبوڈان میلوسیوک (Slobodan Milošević) کی قیادت میں سربیا کی قوم پرست حکومت کا تختہ الٹنے کے درپے تھی۔ 1990 کی دہائی کے آخر میں، KLF کے جنگجوؤں اور مخبروں نے نیٹو کو میلوسیوک کا تختہ الٹنے میں مدد دی؛ جب کہ نیٹو کے جیٹ طیارے سربیا کی فوجی تنصیبات پر بمباری کر رہے تھے۔ 2000 تک، میلوسیوک اقتدار سے الگ ہوگیا تھا۔ نیٹو نے KLF کو مرکزی دھارے میں داخل کر دیا اور 2008 تک کوسوو میں فوجی موجودگی برقرار رکھی، یعنی اس وقت جب اس خطے نے سربیا سے آزادی کا اعلان کیا۔

لیکن زیادہ تر معاملات میں، علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے غیر ملکی حمایت نے انہیں صرف زندہ رہنے میں مدد فراہم کی ہے، اور یہ حمایت انہیں اصل مقصد تک نہیں پہنچا سکی ہے؛ اور بعض اوقات یہ ان کے حمایتیوں کی جانب سے دانستہ پالیسیوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جوشوا سی نامیاسکالر  کے مطابق اگر کوئی غیر ملکی حمایتی فوجی مدد فراہم نہیں کرتا ہے تو علیحدگی پسند تحریکیں منہدم ہو جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر، انڈر ووڈ سری لنکا میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (LTTE) کا حوالہ دیتے ہیں۔

اس گروپ نے سری لنکا کی حکومت کے خلاف 1983 سے 1987 تک دہشت گردی کی ایک انتھک مہم چلائی، جس کا مقصد ملک کے شمال میں سری لنکا کے تاملوں کے لیے ایک الگ وطن بنانا تھا۔

بھارتی سکالر رجت گنگولی کے مطابق بھارت نے اس عرصے میں ایل ٹی ٹی ای کے عسکریت پسندوں کو اسلحہ دیا اور تربیت فراہم کی۔

لیکن 1987 تک، تامل علیحدگی پسندی کے لئے ہندوستان کی حمایت کو رفتہ رفتہ 'غیر تعمیری' قرار دیا گیا۔ اس کی وجہ بھارت کے اپنے تامل اکثریتی علاقوں میں تحریک کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ LTTE کی جانب سے دوسرے تامل گروہوں کے خاتمے کے خدشات تھے جنہیں بہت سے ہندوستانی تاملوں کی حمایت حاصل تھی۔

اس کے علاوہ، بھارت صرف سری لنکا میں مستقل عدم استحکام پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا، کیونکہ وہ اس ملک کو پاکستان کا اتحادی سمجھتا تھا۔ سری لنکا نے جواب میں ہندوستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت ہندوستانی فوجیوں کو سری لنکا میں تعینات رہنے اور تامل عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی میں سری لنکن افواج کی "مدد" کرنے کی اجازت دی گئی۔

انڈر ووڈ کے مطابق، ہندوستان کی فوجی امداد منقطع ہونے کے بعد، ایل ٹی ٹی ای (LTTE) کی بقا مزید مشکل ہو گئی۔ بالآخر، 2009 تک، سری لنکا کی مسلح افواج نے تامل علیحدگی پسند تحریک کو کچل دیا۔

ایک غیر ملکی طاقت علیحدگی پسند تحریکوں کو تین اہم قسم کی مدد فراہم کرتی ہے: معاشی، فوجی اور اخلاقی۔

لیکن فوجی امداد سب سے اہم ہے، خواہ غیر ملکی طاقت کی پالیسی کسی ملک کو مستقل محض عدم استحکام کی حالت میں رکھنا ہی کیوں نہ ہو۔

بھارت اب اسی مقصد کے ساتھ پاکستان میں بلوچ تحریکوں کی تقریباً کھل کر حمایت کرتا ہے۔ یہ تصور بہرحال پایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں مسلسل عدم استحکام پاکستان میں چین کی اقتصادی موجودگی کو بھی غیر مستحکم کر دے گا۔

اس سلسلے میں اسرائیل کی مبینہ شمولیت حیران کن نہیں ہے۔ لیکن تاریخی طور پر، اسرائیل نے عراق میں کرد علیحدگی پسند تحریک کی حمایت اور شام میں دروز کی حالیہ فوجی حمایت کے سوا، علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت نہیں کی ہے۔ بلوچستان کے لئے اس کا محرک ایک ہی نظر آتا ہے: صوبے کو مستقل عدم استحکام کی حالت میں رکھنا۔ تاہم، بھارت بلوچستان میں بدستور اہم بیرونی کھلاڑی کا کردار ادا کر رہا ہے۔

کئی دہائیوں کے دوران، پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند تحریکیں مختلف بیرونی کھلاڑیوں پر منحصر رہی ہیں: افغانستان، عراق، ایران، اور اب بھارت۔

عراق اب اس میدان میں سرگرم نہیں ہے، اور افغانستان کی بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت پاکستان مخالف اسلام پسند تحریکوں کی حمایت کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔ ایران کے ملوث ہونے کا تعلق پاکستان کی جانب سے ایران مخالف بلوچ گروپوں کی مبینہ حمایت سے بھی ہے۔

لیکن کسی بھی غیر ملکی کھلاڑی نے بلوچ علیحدگی پسندی میں اتنی سرمایہ کاری نہیں کی جتنی بھارت نے، خاص طور پر 2014 سے، سے کی ہے۔

محقق میر شہباز کھیتران کے مطابق، چونکہ بلوچستان سیاسی اور اقتصادی طور پر نظر انداز اور بھولا بسرا خطہ رہا ہے، چنانچہ اس کی کمزوریوں اور زدپذیریوں نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان میں کشیدگی اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے کا اچھا خاصا چارہ فراہم کیا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سازشیں کب اور کہاں تک جاری رہیں گی؟

بلوچستان کے بحران میں اسرائیلی قدموں کے نشان

پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔

مغربی طاقتیں بھی پاکستان میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی سرمایہ کاری پر بھارت جتنی فکرمند ہو سکتی ہیں، لیکن وہ ایک ایٹمی ریاست کی مکمل شکست و ریخت کا سبب نہیں بننا چاہتیں۔ مگر یہ کہ وہ اتنے بے وقوف ہوں کہ پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ غلط ہاتھوں میں جانے دینا چاہیں۔

لہٰذا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اصل مقصد پاکستان کو غیر مستحکم رکھنا ہے تاکہ چین کو سائیڈ لائن پر رکھا جا سکے۔

بھارت نے بلوچ عسکریت پسندوں (نیز اسلام پسندوں) کو فنڈنگ، اسلحہ اور تربیت فراہم کرکے اس مقصد کو حاصل کرنے کی بہتیری کوششیں کی ہیں۔

نتیجتاً، یہ اس چھوٹی سی "آئیڈیالوجی" کے خاتمے کا باعث بنا جو کبھی بلوچ علیحدگی پسندی سے چمٹی ہوئی تھی۔ ہندوستانی حمایت یافتہ اسلام پسندوں کے ساتھ بلوچ علیحدگی پسند، اب پاکستان کے عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے 'تیار ہتھیار' بن چکے ہیں۔

سربیا میں KLF نیٹو افواج کے لئے ایک پیدل کارندے اور مخبر کے طور پر کام کرنے میں کامیاب ہؤا، اور اس قدر مضبوط ہو گئی کہ آخر کار جب نیٹو کے طیاروں نے سربیا پر آسمان سے حملہ کیا تو وہ اس [سربیا] سے الگ ہو گئے۔

لیکن اس سال مئی میں پاکستان پر بھارت کے فضائی اور میزائل حملے، صرف بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے، حکومت مخالف بیان بازی کا باعث بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کا موثر جواب دیا، چنانچہ بلوچستان میں KLF جیسا منظر نامہ تقریباً ناممکن تھا۔

چین اور پاکستان کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے اسٹراٹرٹیجک تعلقات کے ساتھ، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ "شکست خوردہ" بھارت بلوچ عسکریت پسندوں کی حمایت کیونکر جاری رکھ سکتا ہے؟

اگرچہ جنگ کے بعد سے بھارت نے اس صوبے میں اپنی مداخلت کو توسیع دی ہے، لیکن بلوچ عسکریت پسندی ایک شیطانی چکر میں الجھی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت میں کمی سے یہ تحریک پہلے سے زیادہ کمزور بھی ہو سکتی ہے۔

شاید اسی لئے اب اسرائیل اس مسئلے میں آ ٹپکا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مضمون 'اقبال انسٹی ٹیوٹ آف تھاٹ' نامی ایرانی ٹیلی گرام چینل نے 'بلوچستان کے بحران میں اسرائیل کے قدموں کے نشان؛ کے عنوان سے فارسی میں شائع کیا۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha