بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، غزہ میں غاصب ریاست کی طرف سے انسانی بحران کو مزید گہرا کرنے اور زیادہ سے زیادہ نسل کشی کرنے کے لئے مزید وقت خریدنے ختم نہ ہونے والے کھیل کے عین وقت پر، حماس کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک خلیل الحیّہ کے دلیرانہ خطاب نے ایک بار پھر عرب دنیا کی سیاسی پوزیشنوں میں موجود گہری دراڑیں آشکار کر دی ہیں۔
عرب عوام کو اٹھ کھڑے ہونے اور غاصب صہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کی صریح دعوت نے اسرائیل کے اتحادیوں کے تنقیدی ردعمل کو ہوا دی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تنقیدی رد عمل 'فلسطینی عوام کے لئے فکرمندی' پر مبنی نہیں ہے بلکہ خطے میں 'اسرائیل کے ساتھ سازباز کرنے والے عرب حکمرانوں کے خوشامدانہ کردار' کے عیاں ہونے اور ان کے [مزید] بدنام ہونے کے خدشے کا اظہار ہے۔
خلیل الحیہء کے دلیرانہ بیانات نے سمجھوتہ کرنے والوں کو رسوا کردیا۔
اخبار رأیِ الیوم کے چیف ایڈيٹر عبدالباری عطوان، نے اپنے اداریے میں خلیل الحیہ کے بیانات کو ساز باز کرنے والے عربوں جسم کے لیے "مہلک ڈنک" قرار دیا اور لکھا: مجاہد خلیل الحیہ، غزہ کی پٹی میں حماس تحریک کے سربراہ اور اس کے سیاسی بیورو کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک حماس کی مذاکرتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں جنہیں شجاعت اور لیاقت کے تمغے کے مستحق ہیں؛ اس لئے کہ انھوں نے اپنی حالیہ تقریر میں اعلان کیا کہ حماس مصری اور قطری ثالثوں کے ذریعے اور امریکہ کی نگرانی میں غاصب اسرائیلی ریاست کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی "مضحکہ خیز نمائش" سے الگ ہو رہی ہے، جو 22 مہینوں سے جاری ہیں۔ وہ مذاکرات جو غزہ میں بھوک سے نڈھال بچوں اور ان کی ماؤں کے لئے ایک روٹی یا ملک پاؤڈر کا ایک ڈبہ تک لانے کے قابل نہیں رہے۔
انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا: "غزہ کی پٹی میں ہمارے بچوں، عورتوں اور عوام کے محاصرے، نسل کشی اور بھوک سے مرنے کے حالات میں مذاکرات جاری رکھنا مہمل اور بے معنی ہے۔" اس کے بعد انہوں نے عرب اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین کی طرف مارچ کریں اور محاصرہ توڑنے کے لیے اپنے ملکوں میں اسرائیلی سفارت خانوں کا گھیراؤ کریں۔
عطوان نے لکھا: "ہماری رائے میں، اس تقریر کی بے مثال مضبوطی سے زیادہ اہم، اس کی بے تکلفی بے ساختگی اور حقائق کو بغیر کسی خوف و خطر کے، بیان کرنا ہے؛ خاص طور پر جہاں انھوں نے غذائی امداد کے ایئر لفٹ کے بارے میں کہا: "ہم ایئر لفٹ آپریشن نامی مضحکہ خیز تماشوں کو مسترد کرتے ہیں؛ کیونکہ یہ جرائم کو چھپانے کے لئے ایک پروپیگنڈا مہم کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "غزہ تک امداد پہنچانے کے لئے کی جانے والی ہر پانچ ایئر لفٹ کاروائیوں میں ایک چھوٹے ٹرک کے بوجھ کے برابر امداد پہنچائی جاتی ہے۔ اگر وہ غزہ میں بھوک مٹانا چاہتے ہیں تو انہیں گذرگاہوں کو کھولنا چاہیے، خاص طور پر رفح کی گذرگا، جو اس وقت موت کی گذرگاہ بن چکی ہے۔"
مقاومت نے ملبے سے غاصب فوج کی نااہلی کو بے نقاب کر دیا
اخبار رأیِ الیوم کے چیف ایڈيٹر حماس قیادت کے طرز عمل کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا: "غزہ کی پٹی میں اسلامی مقاومتی تحریکیں بالخصوص حماس اور اسلامی جہاد نے، بھوک اور قتل عام کے باوجود ملبے تلے اور سرنگوں کی گہرائیوں سے قبضے اور غصب کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ کوئی بھی دن ایسا نہیں گذرتا کہ وہ اسرائیلی افواج، ان کے ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کے خلاف اسنائپر آپریشن نہ کریں؛ ان کارروائیوں نے دشمن کے فوجیوں کو بھاری جانی نقصان پہنچایا ہے۔"
عطوان نے مزید لکھا ہے: فلسطینی مجاہدین کے ان دلیرانہ اور بہادرانہ اقدامات نے ایک ایسے وقت میں ـ جب عرب دنیا ہتھیار ڈال کر خاموشی کی زندگی بسر کر رہی ہے، ـ نہ صرف قابض فوج اور اس کے کمانڈروں کی حقیقت کو آشکار کر دیا ہے بلکہ اسرائیلی دشمن کو محدود اور نمائشی امداد کی فراہمی پر مجبور کر دیا ہے، خواہ وہ فضا سے پھینکے کی صورت میں یا شرمناک طور پر چند ٹرکوں کے لیے گذرگاہ کھولنے کی صورت میں کیوں نہ ہو۔
کھلے زخموں اور بھولی ہوئی عرب یکجہتی کی یاددہانی
اس مقاومت نے جرم کے مرتکب افراد کے خلاف عالمی یکجہتی کی وسیع لہریں پیدا کی ہیں اور کچھ حکومتوں کو مجرموں کا ساتھ دینے کے کوکون (ریشمی خول) سے باہر آنے پر مجبور کر دیا ہے۔
مجاہد خلیل الحیہ نے بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے "زخم پر انگلی" رکھی اور مصر اور اردن کے لوگوں سے جو فلسطینی سرحدوں کے قریب ہیں، گرمجوشی سے خطاب کیا اور ان سے اپیل کی کہ وہ غزہ کو مزید تنہا نہ چھوڑیں جو کہ بھوک سے مر رہا ہے۔
انہوں نے دلیری کے ساتھ رفح کراسنگ کو "موت کی کراسنگ" کا عنوان دیا، ایک ایسی وضاحت جس نے دونوں ممالک کے کچھ اداروں کے میڈیا کی طرف سے شدید حملوں کو اکسایا۔ ایسے حملے جو "مکالمے کے آداب" اور احترام کے اصولوں سے ہٹ کر تھے۔
مقاومت نے دشمن کی ڈکٹیشن کو مسترد کر دیا
عطوان نے واضح کیا: یہ مقاومت، جس نے جنگ بندی کو قبول کرنے اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے اپنی جائز شرائط سے ایک ملی میٹر بھی پیچھے ہٹنے سے انکار کیا، نہ تو دھوکا کھایا اور نہ ہی اس نے عرب ثالثوں کے دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالے جو دو دشمنوں، اسرائیلیوں اور امریکیوں کے حکم کے تحت کام کر رہے تھے۔ اس مقاومت کے قائدین نے ثابت کیا کہ وہ اعلیٰ سطح کے شعور، ذمہ داری اور مہارت کے مالک ہیں، خاص طور پر مذاکرات کے انتظام میں، اس طریقے سے جس نے اس کی ساکھ کو مستحکم کیا اور نتائج کو نتیجہ خیز بنایا اور دشمن کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ اور جو کچھ اب ان کی نظروں کے سامنے ہے، یقینا وہ عظیم تر اور زیادہ اہم ہوگا۔
دنیا اسرائیل کی ڈھونگ جمہوریت کی نیند سے بیدار ہو رہی ہےا
خلیل الحیہ اور غزہ میں مقاومت کے تمام فیلڈ کمانڈروں نے ثابت کیا کہ وہ دھوکے میں نہیں ہیں اور "طوفان الاقصی" کے معجزے کو آخری مرحلے تک لے جانے کے لئے پرعزم ہیں۔ ایک ایسا مرحلہ جس میں قابض دشمن کا خونخوار اور جرائم پیشہ چہرہ عیاں ہوگا اور اس کے اصل چہرے کو ڈھانپنے والے تمام جعلی نقاب دنیا کے سامنے پھاڑ دیئے جائیں گے۔
اس عظیم کارنامے نے اپنی حقیقت کو ـ اسرائیل کے دھوکے میں آنے والے ممالک اور اقوام میں غصے اور بیداری کی لہر دوڑا کر ـ عیاں کر دیا ہے: وہ ممالک جو جنہوں نے اس فریب کو مان لیا تھا کہ 'اسرائیل خطے میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی نمائندگی کرتا ہے!'
مزاحمت کی حمایت کرنے والی قوموں اور حکومتوں کو خراج تحسین
اخبار رأیِ الیوم کے چیف ایڈيٹر نے اپنے اداریے میں مزید لکھا: "غزہ میں مقاومت کی قیادت کی نمائندگی کرنے والے خلیل الحیہ مزاحمتی مورچوں میں کھڑے ساتھیوں اور غزہ پر صہیونی جارحیت کے خاموش تماشائیوں کو الگ الگ انداز سے، مخاطِب ہوئے۔ انھوں نے زور دے کر یمنی عوام کو خراج تحسین پیش کیا، جو ہر روز تل ابیب، حیفا، عسقلان، اشدود اور ایلات پر ہائپرسونک میزائل برساتے ہیں اور امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں اور اسرائیل سے تعلق رکھنے والے یا اس کے لئے سامان لے جانے والے جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
انھوں نے المغرب العربی، بالخصوص بالخصوص الجزائر، تیونس، لیبیا اور مراکش کے لوگوں کی تعریف کی جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لئے خوراک کے قافلوں کے ساتھ روانہ ہوئے ہیں۔
اس نے ان حکومتوں کی خوشامد کے بغیر بات کی جو نسل کشی کی جنگ میں دشمن کے ساتھی ہیں جنہوں نے قاتلوں کو تازہ خوراک فراہم کرنے کے لئے زمینی پل بنائے ہیں اور غزہ کے مقاوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے معزز ترین افراد کو گرفتار کرتے ہیں (= ساز باز کرنے والے عرب حکمران، بالخصوص امارات، سعودیہ اور اردن، کے کرتوتوں کی طرف اشارہ)۔
اتوان نے آخر میں لکھا: "یہ محور مقاومت (یا محاذ مزاحمت)، اپنے جہاد، ثابت قدمی، اور دو ٹوک لب و لہجے کے ساتھ ـ جو روزانہ کی بہادرانہ کاروائیوں کو تقویت پہنچاتا ہے، ـ اپنے تمام وفادار اتحادیوں کے ساتھ، وہی محاذ ہے جو مشرق وسطیٰ کا نقشہ دوبارہ کھینچ لے گا؛ نہ کہ بنیامین نیتن یاہو، جو کہ بڑھتی ہوئی ناکامیوں کے ساتھ، اب اپنی آخری سیاسی سانسیں لے رہا ہے... اور آنے والے دن اس حقیقت کے گواہ ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ