23 جولائی 2025 - 20:10
تیونس کے صدر نے غزہ کے بھوکے بچوں کی تصاویر دکھا کر ٹرمپ کے مشیر کو للکارا + ویڈیو

تیونس کے صدر قیس سعید نے غزہ کے بھوکے بچوں کی تصاویر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ و افریقہ "مسعد  بولوس" کے سامنے رکھیں اور صہیونی ریاست کے بھوک اور قحطی مسلط کرنے کے اقدام کو "انسانیت کے خلاف جرم" قرار دیا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ و افریقہ "مسعد  بولوس" تیونس کے دورے پر گئے تو تیونس کے صدر قیس سعید نے غزہ کے بھوکے بچوں کی تصاویر ان کے سامنے رکھیں اور غزاویوں پر صہیونی ریاست کی طرف سے بھوک اور قحط مسلط کیئے جانے کو "انسانیت کے خلاف جرم" قرار دیا۔

تیونس کے صدارتی دفتر نے بدھ کی شام اپنے سرکاری فیس بک پیج پر قرطاج محل (Carthage Palace) میں ہونے والی اس ملاقات کی ویڈیو جاری کر دی۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قیس سعید کھڑے ہو کر "بولوس" کا استقبال کر رہے ہیں اور انہیں غزہ کے بھوکے بچوں کی تصویریں دکھا رہے ہیں۔

ان تصاویر میں سے ایک میں ایک بچہ دکھائی دیتا ہے جو روتے ہوئے ایک برتن سے چمچ کے ذریعے ریت اور مٹی کھا رہا ہے۔

سعید نے اس تصویر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "میرا خیال ہے آپ اس تصویر کو اچھی طرح پہچانتے ہیں؛ مقبوضہ فلسطین میں ایک روتا ہوا بچہ، اکیسویں صدی میں مٹی کھانے پر مجبور ہے کیونکہ اس کے سامنے کھانے کے لیے مٹی کے سوا کچھ نہیں۔"

پھر انھوں نے ایک اور تصویر پیش کی جس میں ایک بچہ شدید بھوک کی وجہ سے اس قدر لاغر تھا کہ اس کی ہڈیاں جلد کے نیچے سے نمایاں تھیں، اور کہا: "یہ ایک اور بچے کی تصویر ہے جو قریب الموت ہے، کیونکہ اسے کھانے کو کچھ نہیں ملا۔ بے شک آپ کے پاس بھی ایسی ہی کئی تصاویر موجود ہوں گی؛  آپ نے بھی دیکھا ہوگا اس تصویر کو جس میں، مقبوضہ فلسطین میں، ایک بچہ روتا ہے اور 'ریت کھاتا ہے'۔"

سعید نے تیسری تصویر دکھاتے ہوئے بات جاری رکھی اور کہا: "غزہ کی یہ صورت حال بالکل ناقابل قبول ہے۔ یہ سب انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ایک اور بچہ شدید بھوک کی وجہ سے قریب الموت ہے، اور شاید اب تک زندہ نہ بچا ہو۔"

ایک اور تصویر میں جو انھوں نے بولوس کو دکھائی، ایک فلسطینی بچہ دکھائی دے رہا ہے جس کے پاس پینے کے لئے پانی کا ایک قطرہ تک نہیں تھا؛ اور قیس سعید نے کہا: "یہ ایک ناقابل قبول سانحہ ہے۔ کیا یہی وہ چیز ہے جسے ہم بین الاقوامی قانونی مشروعیت اور جواز حکومت کا نام دیتے ہیں؟! وہ قانونی جواز جس کی حیثیت روز بروز مزید انحطاط اور شکست و ریخت کا شکار ہو رہی ہے؟! جب ہمیں ان سانحات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؛ وہ سانحات جن کا فلسطینی عوام ہر روز اور ہر گھنٹے سامنا کر رہے ہیں؛ تو پھر اس قانونی حیثیت کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔"

تیونس کے صدر نے زور دے کر کہا: "یہ صورتحال غزہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ فلسطینیوں کو ہر جگہ بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، نہ صرف غزہ میں، بلکہ پورے فلسطین میں۔"

سعید نے پھر بولوس کو ایک لڑکی کی تصویر دکھائی جو انتہائی افسوسناک حالت میں پانی کے ایک قطرے کی تلاش میں تھی، اور کہا: "اب وقت آ گیا ہے کہ انسانیت جاگے اور ان جرائم کو روکے۔"

انھوں نے اپنے رشتہ داروں کی گود میں بے جان بچوں کی ایک اور تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: "یہ شیر خوار بچے ہیں۔ ان کا گناہ کیا ہے؟ فلسطینی قوم کا کیا قصور ہے سوا اس کہ وہ حق خودارادیت کے خواہاں ہے اور اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہے؟"

تیونس کے صدر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:"یہ تصویریں انتہائی لرزہ خیز ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صہیونی افواج کی جانب سے ایک وحشیانہ جنگ اور منظم جرائم (Organized crimes) کا تسلسل ہے جس کا مقصد فلسطینی قوم کو نیست و نابود کرنا اور اس مظلوم قوم پر 'شکست کا احساس مسلط کرنا' ہے۔ لیکن آزاد اقوام کبھی بھی شکست تسلیم نہیں کیا کرتیں۔"

قیس سعید نے گذشتہ دہائیوں میں فلسطین، شام اور لبنان پر اسرائیلی قبضے کے تسلسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زور دے کر کہا:

"قابض ریاست اب تک ان سرزمینوں سے پیچھے نہیں ہٹی ہے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کر رہی ہے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔"

تیونس کے صدر نے اختتام پر زور دے کر کہا: "پورا فلسطین فلسطینیوں کا ہے جب تک کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی جس کا دارالحکومت مقدس شہر قدس شریف ہوگآ۔"

اس ملاقات کے دوران جو تقریباً چھ منٹ تک جاری رہی، قیس سعید نے مسلسل متاثرین کی تصاویر دکھائیں اور غزہ میں بھکمری اور نسل کشی کی المناک صورت حال اجاگر کر دی، جبکہ ٹرمپ کے مشیر کا رد عمل سر ہلانے، تصاویر اور میزبان کے درمیان نظریں دوڑانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

اسی دن، غزہ کی پٹی میں فلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا کہ اکتوبر 2023ع‍ سے اب تک غذائی قلت اور بھوک سے جان کی بازی ہارنے والے افراد کی تعداد 101 تک پہنچ چکی ہے، جن میں سے 80 بچے ہیں۔ صرف پچھلے 24 گھنٹوں میں بھی 15 مزید فلسطینی، جن میں 4 بچے شامل ہیں، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کچھ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے غزہ دفاتر نے کارکنوں کی شدید فاقہ کشی اور بھوک کی وجہ سے اپنا کام بند کر دیا ہے اور خدشہ ہے کہ کئی نامہ نگار بھی بھوکوں مریں گے اور یہ تاریخ کا ایک نیا المناک واقعہ ہوگا۔

غزہ حکومت کے میڈیا آفس نے بھی خبردار کیا ہے کہ 140 دن سے زیادہ عرصے تک مکمل طور پر بند رہنے والی گذرگاہوں کے بعد، یہ خطہ "اجتماعی موت" کے دہانے پر کھڑا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha