21 جون 2025 - 02:22
صہیونی ریاست کی تلخ جارحیت اور صہیونیوں کا تلخ انجام

ایران کے خلاف جنگ، اسرائیل کی جنگ نہیں ہے بلکہ مغربی دنیا کی ہے، یہ جنگ ایران کے خلاف نہیں ہے بلکہ کثیر قطبی دنیا قائم کرنے کے لئے کوشاں بڑی مشرقی طاقتوں کے خلاف بھی ہے؛ اس جنگ میں اگر روس اور چین اپنا حصہ ڈال دیں اور اس مغربی جنگ کو ٹال دیں اور ایران کی مدد کریں تو کثیر قطبی دنیا کی تشکیل ممکن ہوجائے گی اور اگر مدد نہ کریں اور ایران اس جنگ سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوجائے تو ان ممالک کو شرمندہ ہونا پڑے گا اور وہ اگلے علاقائی اور ایشیائی انتظامات میں ایران سے کوئی مطالبہ نہيں کر سکیں گے۔ بالفاظ دیگر، ایران بیک وقت اپنا اور روس اور چین سمیت برکس اور شنگھائی تنظیموں کے لئے لڑ رہا ہے، چنانچہ ان دو بڑی تنظیموں اور ان کے بڑوں کے بھی کچھ فرائض بنتے ہیں۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |

صہیونیوں کی تلخ جارحیت اور صہیونیوں کا تلخ انجام

صہیونی جارحیت تلخ تھی لیکن اسرائیل کی پوری زندگی تلخ ہوگئی

اسرائیل نے ایران پر حملہ کیوں کیا؟ / ایران کا جواب دانشمندانہ مگر صہیون شکن

صہیونی ریاست نے کھیل کا قاعدہ درہم برہم کیا ایسی طاقت کے مقابلے میں، جس کے ہاتھ صہیونیوں کے خلاف کسی بھی اقدام بالکل کھلے ہیں۔

مورخہ 12 اور 13 جون 2025ع‍ کی درمیانی رات کو بزدلانہ دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے کئی فوجی کمانڈروں اور ایٹمی سائنسدانوں نیز بچوں اور خواتین کو شہید کر دیا؛ گوکہ خطے میں "امریکہ کے پاگل" کتے سے اس کی توقع کی جا سکتی تھی اور سب اس پاگل کتے کے کرتوں سے واقف تھے، لیکن یہ ایک قصے کا ابتدائی حصہ ہے۔۔۔

یہ ایک قصے کا آغاز تھا جس کا لکھنے والا ایران تھا اور اسے موقع ملا تھا کہ اپنے مختلف النوع اوزاروں سے اس کے موجودہ اور سابقہ جرائم کی سزا دے۔ اگرچہ اسرائیل اور امریکہ کو توقع تھی کہ ابتدائی مرحلے کے فورا بعد ایران ہاتھ اٹھائے گا اور سر تسلیم خم کرے گا اور وہ جو چاہیں گے کر  گذرے گا، لیکن ایران کی طرف سے مجرم کو سزا دینے کے ابتدائی مرحلے میں پاگل کتے کے مالک نے کہا کہ اسے ایران کی طرف سے اس انداز سے قصہ لکھنے کی توقع نہیں تھی، پاگل کتے کے وزیر اعظم نے بھی ابتداء میں آخر تک لڑنے کی شیخیاں بگھاریں، لیکن تل ابیب کا ایک تہائی حصہ تباہ ہؤا تو کہا: "مسئلے کے حل میں سفارتکاری کا کردار بھی ہو سکتا ہے" اور جب ایرانی دباؤ بڑھ گیا تو سفارتکاری پر زور دینے لگا۔

گویا وہ نہیں جانتے تھے کہ اس قصے کے ابتدائی باب میں کونسی چيز ان کا انتظار کر رہی ہے!

بہرحال امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ "يَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظَّالِمِ، أَشَدُّ مِنْ يَوْمِ الظَّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ؛ مظلوم کا ظالم سے انتقام والا دن، ظالم کے مظلوم پر ظلم کرنے والے دن سے کہیں زیادہ سخت ہے"۔ (نہج البلاغہ، حکمت: 241۔)

اسرائیل کا بزدلانہ حملہ اس کی جانی پہچانی روایت کے عین مطابق تھا لیکن اس نے جنگ کا قاعدہ ایران کے حق میں بدل ڈالا اور ایران کو خطے کی بالادست قوت بننے کے اسباب فراہم کر دیے۔

کچھ عجیب واقعات جو خطے میں رونما ہوئے تو صہیونیوں نے اپنی پوری تاریخ کی طرح ان واقعات کو اپنی مطلق کامیابی کی علامت قرار دیا اور بدمستی سے دوچار ہوئے جیسا کہ وہ سات اکتوبر کی عظیم اور تاریخی شکست و رسوائی کے بعد کئی مرتبہ غلط فہمی سے دوچار ہوکر بدمست ہوئے ہيں اور پھر مقاومت نے ان اپنی اوقات یا دلائی ہے۔

بدمستی کسی بھی جنگ میں فوجی مراکز اور فوجی منصوبہ سازی کے لئے بہت بڑی آفت ہے؛ جس طرح کہ نیٹو اور مغرب اکسانے پر یوکرین بھی بدمستی سے دوچار ہؤا تھا اور یوکرین کے حصے بخرے ہو گئے، لہذا اسرائیل کو بھی یقینا غیریقینی مستقبل کا انتظار کرنا چاہئے۔

صہیونیوں کی بدمستی سے بھی زیادہ اہم یہ نکتہ ہے کہ ایران ایک معمولی ملک نہیں ہے بلکہ ایک جنگ آزمودہ، میزائل اور دفاعی ٹیکنالوجی کی چوٹیوں پر ہے اور بہت زیادہ اشتیاق کے ساتھ صہیونی ریاست کے منحوس چہرے پر تھپڑ رسید کرنے کے لئے بے چین رہتا ہے۔

یعنی یہ کہ مغرب کے پاگل کتے نے اسی محدود شبیخون میں دو بڑی غلطیوں کا ارتکاب کیا:

اول یہ کہ ایک آشکارا بدمستی میں، کھیل اور جنگ کے قاعدے کو درہم برہم کر دیا اور دوئم یہ کہ اس نے کھیل کا قاعدہ ایک ایسے کھلاڑی کے سامنے درہم برہم کیا جس کا ہاتھ صہیونیوں کے خلاف بالکل کھلا ہے اور اس کی اس خصوصیت کا موازنہ صہیونیوں کے حالیہ ایک سالہ تجربے سے ممکن نہیں ہے۔

سب کو یہ سوال درپیش ہے ہر لمحے، کہ ایران اگلے لمحے اور اگلے دنوں کیا کچھ کرنے جا رہا ہے؟

ہم بھی نہیں جانتے کہ ایران کیا کرنے جا رہا ہے لیکن ایران کے اندر، ایران عوام ان کمانڈروں پر بھروسہ رکھتے ہیں جنہوں نے اس سے پہلے آٹھ سالہ جنگ کا انتظام کامیابی سے آگے بڑھایا، محور مقاومت (یا محاذ مزاحمت) کو قائل کر دیا اور ایران کی فوجی قوت کو یورپ کے قلب تک اور یوکرین کی سرحدوں اور بحر ہند، بحرِ اوقیانوسِ اطلس، بحر الکاہل وغیرہ تک بڑھا دیا، لوگ ان پر اعتقاد رکھتے ہیں۔

یقینا ایران کا جواب عقل کے دائرے میں ہوگا لیکن توڑ دے گا صہیونی وجود کو؛ اور یوں اسرائیل کے سخت ترین دن آن پہنچیں گے، اور اس کی بدمستی انتہائی تلخی پر اختتام پذیر ہو جائے گی۔

یہ وہ دن ہوگا جس کے بعد ایران کو مزید کسی جنگ کا سامنا نہیں رہے گا۔

یہ جنگ بہر حال صہیونی ریاست کو زوال سے دوچار کرے گی، فوری نہ تو تدریجی ضرور ہوگا یہ زوال؛ لیکن چاہے اس جنگ کے نتیجے میں صہیونیت فوری طور پر ختم ہو چاہے تدریجی زوال سے دوچار ہے، لیکن ایک امر مسلّم ہے کہ "ایران ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے گا، اور دوست اسلامی ممالک بڑے شوق سے مل کر ایک علاقائی طاقت تشکیل دینے پر آمادہ ہو جائیں گے"،

نکتہ:

ایران کے خلاف جنگ، اسرائیل کی جنگ نہیں ہے بلکہ مغربی دنیا کی ہے، یہ جنگ ایران کے خلاف نہیں ہے بلکہ کثیر قطبی دنیا قائم کرنے کے لئے کوشاں بڑی مشرقی طاقتوں کے خلاف بھی ہے؛ اس جنگ میں اگر روس اور چین اپنا حصہ ڈال دیں اور اس مغربی جنگ کو ٹال دیں اور ایران کی مدد کریں تو کثیر قطبی دنیا کی تشکیل ممکن ہوجائے گی اور اگر مدد نہ کریں اور ایران اس جنگ سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوجائے تو ان ممالک کو شرمندہ ہونا پڑے گا اور وہ اگلے علاقائی اور ایشیائی انتظامات میں ایران سے کوئی مطالبہ نہيں کر سکیں گے۔ بالفاظ دیگر، ایران بیک وقت اپنا اور روس اور چین سمیت برکس اور شنگھائی تنظیموں کے لئے لڑ رہا ہے، چنانچہ ان دو بڑی تنظیموں اور ان کے بڑوں کے بھی کچھ فرائض بنتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha