31 جولائی 2025 - 02:33
غزہ اسرائیل کی اخلاقی تجربہ گاہ / صہیونی تضادات: قحط کے خلاف احتجاج سے لے کر بھکمری کی حمایت تک + تصاویر

حالیہ ہفتوں کے دوران غزہ میں روزی روٹی کی صورتحال اور ابتدائی طبی امداد کی حالت انتہائی نازک ہو چکی ہے، فلسطینی وزارت صحت کے مطابق سینکڑوں افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، بھوک کی وجہ سے شہادت پا چکے ہیں۔

غزہ میں قحط  اور فاقے

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، حالیہ مہینوں میں غزہ کی پٹی میں انسانی بحران عروج پر پہنچ گیا ہے، خاص طور پر وسیع پیمانے پر قحط اور خوراک کی شدید قلت، جو طویل مدتی محاصرے اور تباہ کن جنگوں کا نتیجہ ہے، صہیونی آبادکاروں کے درمیان مختلف قسم کے ردعمل کا باعث بنا ہے۔ جب کہ ان میں سے کچھ نے غاصب ریاست کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے محاصرے کو غیر انسانی قرار دیا ہے، جبکہ کچھ نے اس ریاست کے وحشیانہ اقدامات کی وکالت کاری جاری رکھی ہوئی ہے۔

سرزمین فلسطین پر قابض آبادکار معاشرے میں یہ تقسیم صہیونی معاشرے اور اس کے عالمی حامیوں کی آراء میں اختلاف کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک طرف، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ناقدین غزہ کے شہریوں کے مصائب کی چونکا دینے والی رپورٹیں شائع کرتے ہوئے ناکہ بندی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دوسری جانب، دائیں بازو کے انتہاپسند صہیونی غزہ کے لئے کسی بھی قسم کی امداد کو سیکورٹی خطرات کا سبب قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔

اس دوہرے رد عمل کا جائزہ لینے سے نہ صرف اسرائیل کے اندر اندرونی انقسام کا اظہار ہوتا ہے بلکہ بین الاقوامی برادری اور میڈیا کے کردار کو بھی نمایاں کرتا ہے جو رائے عامہ کو متاثر کرنے کے حوالے سے اہم ہے۔

شکاف در جامعه صهیونیستی: آیا غزه آزمایشگاه اخلاقی اسرائیل شده است؟/ از اعتراض به قحطی تا حمایت از گرسنگی دادن به مردم فلسطین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صہیونی ویب سائٹ ہاآرتص نے غزہ کی صورت حال کے بارے میں ایک سخت لہجے پر مبنی رپورٹ میں لکھا: اسرائیل اس صورت حال کا الزام اقوام متحدہ پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن درحقیقت خود ہی غزہ میں قحط اور بھکمری کا باعث بنا ہؤا ہے۔ موجودہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ غزہ میں موجودہ قحط اور بھکمری کی صورتحال اسرائیلی فوج کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات اور فوجی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔

اخبار یدیعوت احرونوت کی ویب سائٹ نے بھی غزہ میں بھکمری اور قحط کی عالمی کوریج کا حوالہ دیا اور لکھا: غزہ میں متحرک لاشیں: وہ خوفناک تصاویر جو دنیا دیکھ رہی ہے اور بھوک سے مرتے بچے مصائب کے عینی شواہد اور غزہ پٹی میں شدید بحران کی بے شمار رپورٹیں اس وقت اسرائیل پر عالمی دباؤ کا بوجھ بنی ہوئی ہیں۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی شہ سرخی میں لکھا: 'دبلے پتلے بچے جو نازک ٹوٹتی ہوئی ٹانگوں اور بازوؤں کے ساتھ زمین پر بے ہوش پڑے ہیں' اور اسی عنوان کے تحت اپنی رپورٹ میں لکھا: '11 ماہ کا وہ بچہ جس کا وزن صرف 4 کلو ہے، وہ مائیں جو دودھ نہیں پلا سکتیں، اور وہ ڈاکٹر جو خود 'بھوکے' ہیں—'وہ دن میں صرف 10 چمچ چاول کھاتے ہیں۔'

اسرائیلی اخبار اسرائیل ہیوم نے بھی لکھا: صہیونی ریاست کے عہدیدار غزہ کی بحرانی صورت حال کا اعتراف کرتے ہیں لیکن صہیونی آبادکاروں کا ایک بڑا حصہ غزہ میں انسانی ہمدردی کی بننیاد پر امداد کی منتقلی پر ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

ایک باخبر ذریعے نے اسرائیل ہیوم کو بتایا: امدادی گاڑیوں پر ہجوم یہ ظاہر کرتا ہے کہ خوراک کی قلت ہے، اور قیمتوں میں اضافہ بھی اس کی گواہی دیتا ہے۔ لیکن ان نمایاں حقائق کے باوجود، اسرائیل کی دائیں بازو کی جماعتوں نے غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل کے منصوبے پر تنقید کی ہے!

اس اخبار نے ایک عجیب رپورٹ میں انکشاف کیا کہ غزہ میں انسانی ہمدردی پر مبنی امداد کی ترسیل کی اسرائیلی منظوری کا پس پردہ مقصد بھی در حقیقت فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھنا ہے، اور لکھا کہ نتنیاہو کے قریبی حلقوں نے غزہ کی صورت حال پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم غزہ پر بھوک مسلط نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہم اور امریکہ چاہتے ہیں کہ غزہ میں جنگ جاری رکھنے کے لئے ہمارے پاس جواز کا موجود ہونا، ضروری ہے، اور امداد کی ترسیل کی اجازت اسی بنیاد پر دی گئی ہے"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوشل میڈیا پر بھی حالت یہی ہے۔ کچھ صیہونی صارفین موجودہ صورت حال پر تنقید کرتے ہیں جبکہ کچھ اس وحشیانہ پالیسی کو سراہتے ہیں:

زہاوا گالئون نے غزہ کے بچوں کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا:

بچے جو بھوک سے مر رہے ہیں!

اسرائیلی فوج اصرار کرتی ہے کہ غزہ میں کوئی قحط نہیں

ہم اپنے لئے اس صورت حال کا جواز کیونکر پیش کر سکتے ہیں؟

اگر موجودہ صورت حال قحط نہیں ہے، تو پھر کیا ہے؟"

غزہ اسرائیل کی اخلاقی تجربہ گاہ / صہیونی تضادات: قحط کے خلاف احتجاج سے لے کر بھکمری کی حمایت تک + تصاویر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ری اسٹارٹ اسرائیلی نامی اکاؤنٹ:

صہیونی رپورٹر اوہد حمو نے اپنے انٹرویو میں کہا:

"غزہ میں بھوک ہے - ہمیں اسے اونچی آواز میں، صاف اور واضح طور پر کہنے کی ضرورت ہے: وہ لوگ جنہوں نے کئی دنوں سے نہیں کھایا ہے۔ یہاں کچھ نہیں جاتا ہے۔ ہم کمزوری، چکر آنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جن کا درجنوں کلو گرام وزن کم ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کافی امداد پٹی میں داخل ہو جائے تو بھی مسئلہ تقسیم کے طریقہ کار میں ہے۔ اور اسی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو خوراک نہیں ملتی ہے۔"

"غزہ کی پٹی میں، لوگ صرف ایک چیز میں مصروف ہیں - کھانے کی تلاش میں۔ اور ان میں سے کچھ کو تو کچھ بھی نہیں ملتا۔"

#وار_روم

#غزہ_پٹی_میں_قحط

غزہ اسرائیل کی اخلاقی تجربہ گاہ / صہیونی تضادات: قحط کے خلاف احتجاج سے لے کر بھکمری کی حمایت تک + تصاویر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوهد حمو، لکھتا ہے: ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے، ان کے منہ سے کچھ بھی نیچے نہیں جاتا۔ ہم کمزوری اور سرچکرانے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جن کا وزن کئی کئی کلوگرام گھٹ گیا ہے۔

یہاں تک کہ اگر کافی شافی امداد بھی غزہ پہنچے، پھر بھی تقسیم کی روش آڑے آتی ہے [کیونکہ تقسیم کا کام بھی صہیونی فوج کے ہاتھ میں ہے] اسی لئے لاکھوں فلسطینیوں کھانا وصول نہیں کرتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادھر صہیونیوں کے جرائم پیشہ وزیر ایتمار بن گویر ـ جس نے ایک لمحہ بھی بھی فلسطینیوں کو دکھ دینے میں تاخیر نہیں کی ہے ـ نے غزہ میں قحط اور بھکمری کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'غزہ میں امداد کی ترسیل بہت پہلے روک دی جانی چاہئے تھی' اس نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں کوئی بھوک نہیں ہے، ان خبروں میں سے ایک بڑے حصے کا تعلق صرف لوگوں کے اختراعات اور جعل سازیوں سے ہے؛ اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ حماس ہی انہیں کھانا فراہم کرے! میں نے وزیر اعظم سے اس معاملے پر فوری بات چیت کے لئے کہا، مجھے امید ہے کہ وہ مان جائے گا۔

غزہ اسرائیل کی اخلاقی تجربہ گاہ / صہیونی تضادات: قحط کے خلاف احتجاج سے لے کر بھکمری کی حمایت تک + تصاویر

نیز پوری دنیا میں 1000 ربیوں [یعنی یہودی مذہبی راہنماؤں] نے صہیونی ریاست پر الزام لگایا ہے کہ وہ قحط اور بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور تل ابیب سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دے۔

امریکہ، برطانیہ اور یورپی اتحداد کے ممالک نیز مقبوضہ فلسطین کے ربیوں نے ایک کھلے خط پر دستخط کئے ہیں اور لکھا ہے کہ "یہودیوں کو ایک سنجیدہ اخلاقی بحران کا سامنا ہے"۔

اس خط میں مزید لکھا گیا ہے: "غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد کی شدید قلت اور عام اور غیر فوجی عوام تک کھانے، پانی اور ادویات کی ترسیل پر قدغن، ان یہودی اقدار سے متصادم ہے جنہیں ہم جانتے ہیں"۔

ربیوں نے صہیونی ریاست سے مطالبہ کیا کہ "انسانی بنیادوں پر وسیع امداد" کی ترسیل کی اجازت دے، لیکن حماس تک اسے نہ پہنچنے دیں [پھر بھی تضاد!] اور صہیونی ریاست اپنے قیدیوں کی واپسی کا انتظام کرے اور جنگ کو ختم کرے!"۔

جمعہ کے روز شائع ہونے والے اس خط پر ایک ہزار یہودی ربیوں نے دستخط کئے ہیں۔

غزہ اسرائیل کی اخلاقی تجربہ گاہ / صہیونی تضادات: قحط کے خلاف احتجاج سے لے کر بھکمری کی حمایت تک + تصاویر

ادھر صہیونی اخباری ویب گاہ واللا نیوز کے مطابق، صہیونی ریاست کی پانچ بڑی یونیورسٹیوں کے سربراہوں نے پیر کے روز علی الصبح صہیونی وزیر اعظم "بنیامین نیتن یاہو" کو ایک سخت اور تنقیدی خط ارسال کیا اور غزہ میں موجود خوفناک قحط اور بھکمری کا خاتمہ کرنے کا مطالبہ کیا جو معصوم افراد بشمول کم سن بچوں اور شیرخواروں کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔

غزہ اسرائیل کی اخلاقی تجربہ گاہ / صہیونی تضادات: قحط کے خلاف احتجاج سے لے کر بھکمری کی حمایت تک + تصاویر

اس رپورٹ کے مطابق، "تل ابیب یونیورسٹی"، :عبرانی یونیورسٹی"، "آزاد یونیورسٹی"، "وائزمین انسٹی ٹیوٹ" اور "تخنیون یونیورسٹی" کے سربراہوں نے خط میں نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کو انسانی بحران کے حل اور معصوم افراد کو نقصان سے بچانے کے لئے اقدام کرنے کی ہدایت کرے۔

اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی انروا کے سربراہ فلپ لازارینی کے بقول، تقریباً 90 ہزار خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں؛ یہ ایسی صورتحال ہے جسے امدادی گروپوں نے انسانی ساختہ قحط قرار دیا ہے جو صہیونی ریاست کے محاصرے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔

غزہ اسرائیل کی اخلاقی تجربہ گاہ / صہیونی تضادات: قحط کے خلاف احتجاج سے لے کر بھکمری کی حمایت تک + تصاویر

نکتہ:

ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ کے بہت سارے لوگ زندہ لاشوں کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ اپنی زندگی کھو چکے ہيں یہاں تک کہ اگر ان کو کھانا بھی ملے پھر بھی وہ مزید زندہ نہیں رہ سکتے: کھانا ملے بھی موت، کھانا نہ ملے بھی موت۔۔۔ ماشاء اللہ اس دور میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے تقریب دو ارب مسلمان اس دنیا میں جی رہے ہیں جو غزہ کی صورت حال سے پوری طرح آگاہ بھی ہیں لیکن بالکل خاموش ہیں بالکل خاموش، ان سے وہ فلوٹیلاز اور کشتیاں لانے والے عیسائی، بدھ مذہب کے پیروکار کوریائی، جنوبی امریکہ کے کمیونسٹ یہاں تک کہ فلسطین پر قبضہ جمانے والے کچھ یہودی آبادکار بھی ـ جو صہیونی ریاست کے کرتوتوں پر تنقید کرتے ہیں ـ بے حس امت سے بہت بہتر ہیں۔ اور ہاں، لیکن انہیں جواب دینا ہے جلد یا بدیر، اور اگر ہاں! اگر خدانخواستہ غزہ ہار جائے تو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی مکافات عمل دیکھ لیں گے، یہ بے رحم دشمن ان کے دروازے پر آئے گا اور تب انہیں احساس ہوگا کہ کاش وہ بے حس نہ رہتے اور کچھ کرتے، لیکن بہت زیادہ دیر ہو چکی ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha