بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اخبار 'رأیُ الیوم' کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی اخبار نیوز 12 میں افرائیم اینبار نامی صہیونی تجزیہ کار نے لکھا ہے:
• کچھ سیاستدانوں کے دعووں کے برعکس، اسرائیل ایک علاقائی طاقت نہیں ہے اور وہ مشرق وسطی کے نقشے کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
• 7 اکتوبر سے اسرائیلی فوجی حملوں - خاص طور پر ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے اور حزب اللہ کو کمزور کرنے جیسے واقعات کی من مانی تشریح - نے صہیونیوں ریاست میں اس وہم کو جنم دیا ہے کہ تل ابیب خطے کی پہلے درجے کی "علاقائی طاقت" بن گیا ہے، یہاں تک کہ سیاسی اور فوجی اداروں کے بعض عناصر کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ یہ ریاست مشرق وسطی کا نقشہ بدل سکتی ہے!
• یہ جنونی بشاشت 1967 کی جنگ کے بعد کے دور میں اسرائیلی رہنماؤں کی سرشاریوں سے ملتی جلتی ہے۔ جب حد سے زیادہ خود اعتمادی 1973 میں عربوں کے ساتھ جنگ میں صہیونی ریاست کی شکست کا باعث بنی، لہٰذا یہ اوہام غلط فہمی کے اس مجموعے سے معرض وجود میں آئے ہیں جس نے ـ طاقت کے بارے میں مبالغہ آرائی اور جنونی بشاشت، جنگ کے نتائج کی مبالغہ آمیز تشریح، اور اسرائیل کی بنیادی اسٹرٹیجک حقیقت کے بارے میں غلط تصورات سے ـ جنم لیا ہے۔
• اس کے باوجود کہ ایران کے جوہری پروگرام کو کچھ نقصان پہنچا اور کئی ممتاز ایرانی سائنسدانوں کی شہادت ہوئی، تہران نے اپنا جوہری پروگرام ترک نہیں کیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ اسے دوبارہ شروع بھی کر دے اور یہ امکان موجود ہے کہ ایران اسرائیل پر حملہ کر دے۔
• حزب اللہ اگرچہ کمزور ہو چکی ہے، لیکن اب بھی لبنان میں ایک مؤثر فوجی طاقت ہے، اور بیروت پر حکمران سیاسی نظام میں اسے غیر مسلح کرنے کی ہمت نہیں ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کے خلاف اس کا خطرہ برقرار ہے اور برقرار رہے گا۔
• شام کے معاملے میں کہنا چاہئے کہ بشار الاسد کا زوال اسرائیل کے لئے ایک موقع تھا کہ وہ شام میں اپنے فوجی اثر و رسوخ کو بڑھا سکے اور ایران پر حملہ کرنے کے لئے راستہ ہموار کر سکے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ترکی کے فائدے میں بھی آیا اور شام میں اسرائیل اور ترکیہ کے درمیان براہ راست تصادم کا امکان بھی معرض وجود میں آيا۔
• غزہ میں جنگ ختم نہیں ہوئی ہے، کیونکہ خطے کا ایک حصہ اب بھی حماس کے کنٹرول میں ہے، یہ معاملہ مقاومت کے لئے ایک "علامتی فتح" سمجھا جاتا ہے اور اس کی 'اسرائیل کے خاتمے کی خواہش' کو تقویت پہنچا رہی ہے۔
• اسرائیلی قیدیوں کی مسلسل قید، اسرائیل کی تسدیدی صلاحیت کو کمزور کر رہی ہے، خاص طور پر اس لئے کہ فوج کی کارکردگی غزہ کی جنگ کو ختم کرنے میں نااہلی اور الجھن کا اشارہ دیتی ہے۔
• میں خبردار کرتا ہوں کہ غزہ اسرائیلی ریاست کی فتح یا شکست کا فیصلہ کرے گا، اور حماس کی موجودگی تل ابیب کے لئے ایک طویل المدت تزویراتی تژیک خطرہ ہے۔
• • نکتہ: اس صہیونی تجزیہ کار نے یہ نہیں لکھا کہ: میں خبردار کرتا ہوں کہ حماس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے اور اس کے ساتھ لڑائی جاری رکھنا صہیونی ریاست کے خاتمے کا باعث ہو سکتا ہے۔
• اسرائیلی ریاست بالآخر ایک چھوٹی سی ریاست ہے، خواہ وہ اپنی فوج کے لئے درکار انسانی وسائل کے لحاظ سے ہو یا معاشی اعتبار سے، اور وہ معاشی طور پر ایک باہم جڑی ہوئی دنیا میں اکیلے کھڑی رہنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
• امریکی امداد پر صیہونی ریاست کے شدید انحصار نے اسے واشنگٹن میں سیاسی تبدیلیوں کے سامنے کمزور اور زد پذیر کر دیا ہے۔
• اسرائیل کی طاقت صرف فوجی اور تکنیکی صلاحیتوں سے نہیں ناپی جاتی، بلکہ اس کے داخلی محاذ کی طاقت سے بھی ناپی جاتی ہے جو حالیہ برسوں میں گہرے اختلافات کا شکار ہوچکا ہے۔
• اس بنیاد پر اسرائیلی فیصلہ سازوں کو زیادہ حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اپنانا چاہئے جو احتیاط پر مبنی ہو اور اس وہم سے پاک ہو کہ تل ابیب ایک بڑی علاقائی طاقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ