بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
اسرائیل نے جب 13 جون کو ایران پر حملہ کیا تھا تو اس کو نہیں معلوم تھا کہ اس کو یہ دن دیکھنا پڑے گا۔ اس کے ذہن میں یہ تھا کہ پہلے ہی دن حملوں سے ایران کی کمر ٹوٹ جائے گی اور اس کو تھوڑی بہت پریشانی کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیابی مل جائے گی لیکن جس انداز سے ایران نے اپنے نقصانات کا آزالہ کرکے جوابی کارروائی کی اس نے نہ صرف اسرائیل کو بلکہ پوری دنیا کو حیرانی میں ڈال دیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائیل کے ان حملوں سے نیتن یاہو کی ذات کو فائدہ ہؤا۔ اس کی مقبولیت پر سوال کھڑے ہوئے تھے اور اس کو اور اس کی سیاسی جماعت کو وہاں کے عوام ہرانے کے لئے تیار تھے، اب وہی عوام ایران کے خلاف اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے ہیں اور نیتن یاہو کے تمام گناہ معاف کرتے ہوئے ایران کے تعلق سے اس کی حکمت عملی کی واہ وہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔
ایران پر اسرائیل کی جارحیت سے زیادہ نقصان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس نعرے کو پہنچایا ہے کہ وہ امن کا مسیحا بنیں گے۔ ڈونالڈ ٹرمپ ہوں یا وہ ممالک جو اسرائیل کے پیچھے کھڑے ہیں ان کو صرف اور صرف اپنے معاشی اور سیاسی فوائد نظر آ رہے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ حق کے ساتھ ہیں یا حق کے مخالف ہیں۔
یورپی ممالک جو غزہ کی جنگ کی طرح اسرائیل کے ایران پر کئے گئے حملوں پر اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ اسرائیل کے پیچھے یا ساتھ کھڑے ہونے میں ان کو دو فائدے نظر آ رہے ہیں ایک تو معاشی اور دوسرا یہ کہ ایران کو کسی بھی قیمت پر طاقتور نہ ہونے دینا۔ دوسرا مقصد ان کے لئے زیادہ اہم ہے کیونکہ اگر ایران کامیاب ہو جاتا ہے تو کل کو وہ اتنا طاقتور ہو جائے گا کہ ان کے لئے پریشانی کا سبب بن جائے گا۔ خود امریکی صدر ٹرمپ بھی ایران کو اتنا طاقتور نہیں ہونا دینا چاہتے کہ ان کی چودھراہٹ پر بھی خطرے کے بادل منڈلانے لگیں۔ روس جہاں یوکرین میں مغربی ممالک کی حمایت کا بدلہ لینا چاہتا ہے وہیں چین کو بھی دنیا پر اقتصادی تسلط قائم کرنے کے لئے یہ جنگ سودمند نظر آ رہی ہے۔
خلیجی ممالک اور دیگر اسلامی ممالک اس بحرانی کیفیت کا شکار ہیں کہ وہ کریں تو کیا کریں کیونکہ ان ممالک کے عوام اسرائیل کے خلاف ہیں اور حکمراں اپنے مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے مغربی ممالک اور خاص طور سے امریکہ کے ساتھ ہیں۔ ان ممالک کی حکومتوں کو یہ بھی ڈر ستائے جا رہا ہے کہ اگر ایران کامیاب ہو گیا تو ایران کی مقبولیت میں تو اضافہ ہوگا اور اگر یہ ممالک ایران کا ساتھ نہیں دیتے تو ان کے خلاف ان کے عوام کھڑے ہو سکتے ہیں۔
پہلے ہر جنگ کسی کی شکست میں یا فتح میں ختم ہوتی تھی اور اس زمانے کی جنگیں بھی مختلف قسم کی ہوتی تھیں لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے اب کی جنگوں کی شکل ہی بدل دی ہے، جس کی وجہ سے اس کے نتائج بھی بدل گئے ہیں۔ جاری جنگ کا حل جنگ بندی یعنی سمجھوتہ میں ہی نظر آتا ہے کیونکہ کوئی ملک کسی ملک پر تو قبضہ نہیں کر سکتا، کامیابی کی صورت میں صرف اور صرف حکمرانوں کو تبدیل کر سکتا ہے۔ سمجھوتہ سے جہاں تمام قوتوں کے سر پر لٹکی تلوار ہٹ سکتی ہے، وہیں سب کو جائز مقام بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ بہرحال نیتن یاہو کی طرز سیاست کا دور ختم ہونا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سید خرم رضا کے مضمون کا خلاصہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ